آنگ سان سوچی کی سزا پر سلامتی کونسل کی مذمت، رہائی کا مطالبہ

فائل فوٹو

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کو میانمار کی معزول راہنما آنگ سان سوچی اور سابق صدر ون مِنٹ اور دیگر کو اقتدار سے ہٹانے، قید کرنے اور رواں ہفتے کے دوران انہیں سزا سنائے جانے پر ''سخت تشویش'' کا اظہار کیا ہے۔

میانمار کی ایک عدالت نے پیر کے روز آنگ سان سوچی پر اختلاف رائے پر اکسانے اور کووڈ 19 کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزامات درست قرار دیتے ہوئے انھیں سزا سنائی تھی۔

انھیں یکم فروری کو فوجی بغاوت کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، اس سے قبل ان پر 2020ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگائے گئے تھے جن میں ان کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) پارٹی کو فتح حاصل ہوئی تھی۔

SEE ALSO: میانمار کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کو قید کی سزا

انھیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کے چند ہی گھنٹوں کے بعد فوج نے ان کی سزا میں دو سال کی کمی کا اعلان کر دیا۔

مِنٹ، جو ایک سابق صدر اور این ایل ڈی پارٹی کے اتحادی ہیں، انھیں بھی چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جس میں پھر دو سال کی تخفیف کر دی گئی۔

سزا کے سنائے جانے کے بعد سلامتی کونسل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان فیصلوں کی مذمت کی اور میانمار میں جمہوریت کی جانب لوٹنے کا مطالبہ کیا۔

میانمار کو برما بھی کہا جاتا ہے۔

بیان کے مطابق، سلامتی کونسل کے ارکان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ''یکم فروری 2021ء میں جبراً قید کیا جانا درست نہیں تھا، انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے''۔

Your browser doesn’t support HTML5

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد کیا صورتِ حال ہے؟

سلامتی کونسل نے میانمار میں جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا اور حکمراں فریق کو ہدایت کی کہ وہ ''تشدد کی راہ سے گریز کرے"۔

سلامتی کونسل نے مزید کہا کہ ​تعمیری مکالمہ شروع کیا جائے اور مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے، جو میانمار کے عوام کے مفاد اور ان کی خواہش کے مطابق ہے، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی حرمت کی مکمل پاسداری کی جائے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔