اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیش کار نے الزام لگایا ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت نے اپنے عوام پر مبینہ طور پر منظم مظالم ڈھائے ہیں، جو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ بدھ کو یہ رپورٹ جینیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی۔
خصوصی تفتیش کار تھامس اینڈریوز نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے سامنے میانمار کی فوجی حکومت کے مبینہ مظالم کے بارے میں دستایزی شہادتوں پر مبنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ فوجی جنتا نے میانمار کے عوام پر بڑے پیمانے پر مظالم ڈھائے، جو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے مبینہ طور پر 1100 سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا،800 سے زیادہ افراد کو من مانے طور پر گرفتار کیا گیا اور دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا۔ بقول ان کے، یہ ساری کارروائیاں یکم فروری کو آنگ ساں سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے بعد ہوئیں۔
ان کے الفاظ میں، یہ قتل اور خوںریزی انتہائی بے رحمی سے بلا تخصیص کی گئی، یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی قتل کیا گیا۔
خصوصی تفتیش کار اینڈرریو نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کے بھرپور تعاون اور اقدامات کے بغیر میانمار کو آزادی نصیب نہیں ہو سکے گی۔ انھوں نے مزید الزام لگایا کہ ''فوجی جنتا سے مذاکرات کے ذریعے اس فوجی ظلم اور بربریت کا خاتمہ اس لیے ممکن نہیں کہ فوجی حکومت ظلم ختم کرنے لیے آمادہ نہیں ہے''۔
''چنانچہ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر دباؤ ڈالا جائے۔ حقیقت یہ ہے کی ابھی تک بین الاقوامی برادری کی موجودہ کوششوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے''۔
اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیش کار کا اصرار ہے کہ ''اس طلم اور بربریت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی برادی کی طرف سے مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر میانمار کی تیل اور گیس کی صنعت پر پابندیاں لگانے سے فوجی جنتا ملکی قدرتی وسائل کو چوری کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گی''۔
اسی طرح، بقول ان کے، ہتھیاروں کی ترسیل پر مکمل پابندی اور ٹیکنالوجی کے دوہرے استعمال سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔