اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے حالیہ تجربے کی ’’فوری اور شدید مذمت‘‘ کی ہے اور متنبہ کیا کہ ضرورت پڑنے پر ’’مزید اہم اقدام‘‘ کیا جا سکتا ہے۔
پندرہ رکنی کونسل نے منگل کے روز اپنا ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں کچھ گھنٹوں کے اندر ایک بیان پر اتفاق ہوا۔ اس میں متفقہ طور پر کہا گیا ہے کہ پیر کے روز شمالی کوریا نے تین ’روڈونگ‘ میزائل داغے جو 1000 کلومیٹر دور جاپان کی فضائی حدود میں گرے، جو، ’’عوامی جمہوریہٴ شمالی کوریا کی طرف سے بین الاقوامی ذمہ داریوں کی شدید انحرافی ہے‘‘، جب کہ سلامتی کونسل اس ضمن میں متعدد بار قراردادیں منظور کر چکی ہے۔
نیو زی لینڈ کے سفیر، جیرارڈ وان بوہیمان، جو اس ماہ کونسل کے صدر ہیں، کہا کہ ’’سلامتی کونسل کے ارکان نے عوامی جمہوریہٴ شمالی کوریا کی بیلسٹک میزائل کارروائیاں، جن میں یہ میزائل بھی شامل ہیں، پر اظہارِ افسوس کیا ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ قرارداد میں ’’ایسی کارروائیاں عوامی جمہوریہٴ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار لے جانے والے نظاموں کو تشکیل دینے میں مدد ملتی ہے، اور ان سے تناؤ میں اضافہ آتا ہے‘‘۔
سلامتی کونسل کی جانب سے فوری طور پر بیان کے متن پر متفق ہونا، اس بات کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ چین اپنے بگڑے ہوئے اتحادی کی حرکات پر مایوس ہو چکا ہے۔ اس ہفتے میزائل کا یہ تجربہ ایسے وقت کیا گیا جب چین جی 20 سربراہ اجلاس منعقد کر رہا تھا۔
کونسل کے ارکان نے شمالی کوریا کو متنبہ کیا کہ وہ ’’مزید ایسے اقدام سے باز رہے جن میں جوہری تجربات شامل ہیں، جو سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں، جب کہ اُسے اِن قراردادوں کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں‘‘۔
کونسل نے کمیٹی کو احکامات دیے کہ اِن اقدام پر عمل درآمد کے حوالے سے غیر ملکی تعزیرات کے کام کو تیز کرے، اور رکن ممالک پر زور دیا کہ کونسل کی قراردادوں میں درج اقدام پر عمل درآمد کے لیے پختہ کوششیں کی جائیں۔
اس سے قبل، امریکی سفیر سمنتھا پاور نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’اس کمرے میں بہت ہی ٹھوس اور متعدد آوازیں موجود ہیں، جن میں مزید کام کا تقاضا کیا جا رہا ہے‘‘۔