|
سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعدہزاروں شامی دمشق کی تاریخی مرکزی مسجد میں پہلی نماز جمعہ کے لیے جمع ہوئے، جب کہ دارالحکومت کے سب سے بڑے چوک میں بڑے بڑے ہجوموں نے جشن منایا۔
عرب ٹی وی اسٹیشنوں کے مطابق جمعہ کا خطبہ ہئیت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کی جانب سے اس ہفتے نامزد کیے گئے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر نے دیا۔
دارالحکومت کے پرانے شہر میں واقع دمشق کی تاریخی اموی مسجدنماز کے لیے، جنگجوؤں سمیت، بڑے بڑے ہجوموں سے بھر گئی۔ ان میں سے بہت سے باغی حزب اختلاف کے تین سرخ ستاروں والے جھنڈے کو لہرا رہے تھے جس نے تیزی سے اسد دور کے دو سبز ستاروں والے پرچم کی جگہ لے لی ہے۔
"میں نے 2011 سے اموی مسجد کے ارد گرد سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اس میں قدم نہیں رکھا۔ "
لگ بھگ 1200 سال پرانی اموی مسجد، جودنیا کی قدیم ترین مسجدوں میں سے ایک ہے، شام کی ایک محبوب علامت ہے، اور وہاں کے خطبات پر ، شام بھر کی تمام مساجد کے خطبات کی طرح اسد کی حکومت کا سخت کنٹرول تھا۔
اس کے علاوہ، 2011 میں حکومت مخالف شورش کے ابتدائی دنوں میں، ، اسد کی اس پکڑ دھکڑ سے پہلے جس نے شورش کو ایک طویل اورخونریز خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا تھا ، مظاہرین اکثر جمعہ کی نماز کے بعد اسد کے خلاف ریلیاں نکالتے تھے۔
ایک نمازی ابراہیم العربی نے کہا، "میں نے 2011 سے اموی مسجد کے ارد گرد سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اس میں قدم نہیں رکھا " ۔ "11 یا 12 برسوں سے ، میں اتنا خوش کبھی نہیں تھا۔
ایک اور نمازی، خیر طحہٰ نے کہا کہ "آنے والے حالات کے بارے میں خوف اور گھبراہٹ ہے _ لیکن بہت سی امیدیں بھی ہیں کہ اب ہماری بھی کوئی آواز ہے اور ہم تعمیر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔"
دمشق کے سب سے بڑے چوک میں ، جس کا نام امیہ اسکوائر ہے، ہزاروں لوگ جمع ہوئے، جن میں چھوٹے بچوں پر مشتمل بہت سے خاندان بھی شامل تھے۔یہ اس بات کی علامت تھی کہ کس طرح اب تک ملک کی تبدیلی میں کم از کم، پرتشدد عدم استحکام سامنے نہیں آیا. انہوں نے ہعرے لگائے"شام کی تعمیر کے لیے متحد شام "۔ کچھ لوگوں نے اسد اور ان کے مرحوم والد کے خلاف نعرے بازی کی ۔
ہجوم میں شامل 51 سالہ خالد ابو چاہین کا اصل تعلق جنوبی صوبے درعا سے تھا، جہاں 2011 کی شورش سب سے پہلے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ "تمام شامی، علوی، سنی، شیعہ اور دروز کے لئے آزادی اور ان کے درمیان بقائے باہمی کی امید رکھتے ہیں۔ نسل پرستی کو مسترد کرتے ہیں ۔"
انہوں نے کہا کہ "سابقہ حکومت جرائم اور موت کی سزاؤں کی حکومت تھی۔" انہوں نے مجرموں کے گینگز کی میزبانی کرنے والے غیر ممالک سے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ان کے لئے جو شام میں موجود ہیں اور جو جرائم کا رتکاب کر چکے ہیں انصاف کا سامناکرنے کا مطالبہ کیا ۔‘‘
عبوری وزیر اعظم، البشیر، ادلب میں ایچ ٹی ایس کی تشکیل دی گئی ایک ڈی فیکٹو انتظامیہ کے سر براہ تھے جو شمال مغربی شام میں حزب اختلاف کا ایک محصور علاقہ تھا ۔ باغیوں کی جانب سے دمشق پر حالیہ قبضے سے قبل باغیوں کو برسوں سے ادلب میں گھیر کر رکھا گیا تھا۔
اموی چوک میں ہجوم کے درمیان، وردان عون نے ، جنہوں نے خود کو ادلب کا ایک جنگجو کہا ،نئی انتظامیہ کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا "اب ایک اچھی حکومت ہے... ہم ادلب میں اس حکومت کے تحت رہتے تھے اور وہاں کوئی بدعنوانی نہیں ہے۔"
باغیوں کے ہاتھوں بھگ نصف صدی تک شام پر اسد کی زیر قیادت سخت حکومت کے خاتمے کےتقریباً ایک ہفتے بعد ، شام میں اقتدار کی ڈرامائی تبدیلی کے حوالے سےیہ اجتماعات ایک اہم علامتی لمحہ تھے۔
باغی قیادت کے ماضی پر موجود تشویش
یہ لمحہ ایسے وقت سامنے آیا جب امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے شام میں ایک جامع اور غیر فرقہ وارانہ عبوری حکومت کا مطالبہ کرتے ہوئے ،اقتدار کی منتقلی کو کوئی شکل دینے کے خواہاں خطے بھر کے اتحادیوں سے ملاقات کی۔
اردن اور ترکیہ میں بات چیت کے بعد - جو کچھ باغی دھڑوں کی حمایت کرتا ہے - بلنکن ایک اچانک دورے پر عراق پہنچے۔ ابھی تک امریکی حکام نے شام کے نئے حکمرانوں سے براہ راست ملاقات کی بات نہیں کی ہے۔
مرکزی باغی فورس، ہئیت تحریر الشام، ایچ ٹی ایس ، اتوار کی صبح دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے بعد سیکورٹی کے قیام اور اقتدار کی سیاسی منتقلی شروع کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے ایک عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے جو اسد کے زوال پر ششدرہونے کے ساتھ ساتھ باغی صفوں میں انتہا پسند جہادیوں کی موجودگی پر بھی تشویش میں ہے۔ باغیوں کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے انتہا پسند ماضی سے ناطہ توڑ لیا ہے ، اگرچہ ایچ ٹی ایس کو ابھی تک امریکہ اور یورپی ملکوں نےدہشت گرد گروپ قرار دیا ہواہے۔
SEE ALSO: امریکہ شام میں مستقبل کی حکومت کی مشروط حمایت کرے گا، بائیڈن انتظامیہگروپ کے رہنما، احمد الشارع نے، جو پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف تھے، جمعے کو ایک ویڈیو پیغام میں نمودار ہوئے جس میں انہوں نے "انقلاب کی کامیابی کے لیے شام کی عظیم عوام کو " کو مبارکباد دی۔
انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ " میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ گولیاں چلائے بغیر اور لوگوں کو خوفزدہ کیے بغیر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے چوکوں پر جائیں اور پھر اس ملک کی تعمیر کے لیے کام کرنے کے بعد اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، ہم خدا کی مدد سے فتح یاب ہوں گے۔"
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔