وزیراعظم میاں نواز شریف نے چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری سے متعلق بھارت کے تحفظات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نا قابل قبول ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ چین نے بھی اس منصوبے سے متعلق بھارت کے تحفظات کو مسترد کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کا نام لیے بغیر کہا کہ اس منصوبے کو ہمارے دشمن سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
’’چین پاکستان اقتصادی راہداری جو کہ بہت بڑی سرمایہ کاری ہے ۔۔۔۔ آپ نے آج ایک بیان بھی دیکھ لیا ہو گیا۔۔۔ ہمسایہ ملک نے کس رد عمل کا اظہار کیا ہے اور چین سے کہا ہے کہ یہ ہمارے لیے یہ ناقابل قبول ہے۔۔۔۔۔ تو ان کے عزائم کا اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مخالفین اُن کے بقول ملک کے اندر بھی ہیں اور ملک سے باہر بھی۔
’’ہمارے جو مخالفین ہے ان کو ایک نظر بھی یہ چیز نہیں بھاتی، اور مخالفین بدقسمتی سے اس ملک کے اندر ہیں اور ملک سے باہر ہیں ۔۔۔۔ ہمیں آئندہ اور زیادہ احتیاط کرنی پڑے گی ہم نے اگر اس منصوبے کو کامیاب کرنا ہے یہ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے ۔۔۔۔۔ آپ کو یہ بھی شاید معلوم ہو کہ بھارت نے اس پراعتراض اٹھایا اور چین نے اس کو مسترد کیا ہے۔‘‘
اس سے قبل وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان اور چین اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہیں۔
پاکستان کی طرف سے یہ رد عمل بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے اُس حالیہ بیان پر سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت کو اقتصادی راہداری کے اُس حصے پر شدید تشویش ہے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سے گزرے گا۔
منگل کو قاضی خلیل اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’پاکستان اور چین کے اقتصادی راہداری کے جو منصوبے ہیں اُن کے بارے میں دونوں ممالک (پاکستان اور چین) نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ اُن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے اور اس راہداری کے منصوبے پورے خطے کے لیے مفید ہوں گے۔‘‘
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ چین میں اس منصوبے سے متعلق اپنے اعتراضات سے چینی قیادت کو آگاہ کیا تھا۔
اس منصوبے کا اعلان رواں سال اپریل کے مہینے میں چین کے صدر شی جنپنگ کے دورہ پاکستان کے دوران کیا گیا تھا۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان 46 ارب ڈالر کے جن 51 معاہدوں پر دستخط کیے گئے اُن میں سے 30 سے زائد منصوبے اقتصادی راہداری سے متعلق تھے۔
اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا ایک جال بچھایا جائے گا۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے ملک کی ’’قسمت‘‘ بدلنے کا سبب بنیں گے۔ اگرچہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں چین کی طرف سے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کی معترف ہیں لیکن بعض جماعتوں کی طرف یہ کہہ کر ان پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بعض من پسند علاقوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس اقتصادی راہداری کے منصوبے کے روٹ میں تبدیلی کی گئی۔
تاہم حکومت کے عہدیدار بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
حکومت کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے دو مرتبہ کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی اور گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس راہداری کے سب سے غیر متنازع مغربی حصے کے منصوبوں پر سب سے پہلے کام شروع کیا جائے گا۔