|
پشاور — صوبۂ خیبر پختونخوا کابینہ میں شامل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیرینہ کارکن اور شمالی ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی شکیل خان کی برطرفی کے بعد صوبے میں مبینہ بدعنوانی کا اسکینڈل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔
پشاور کے ایک سینئر صحافی عرفان خان کے مطابق اس قسم کا اسکینڈل نہ صرف ماضی میں دیکھنے میں آیا اور نہ ہی اس سے مستفید ہونے والوں کے نام منظرِ عام پر آئے۔
شکیل خان نے از خود پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران اس مالیاتی اسکینڈل کے بارے میں بتایا تھا۔
عرفان خان کے بقول صوبائی وزیر شکیل خان کو بتائے بغیر سیکریٹری تعمیرات (کمیونی کیشن اینڈ ورکس) نے مئی اور جون کے مہینوں کے منصوبوں کے لیے چھ ارب 87 کروڑ روپے کی خطیر رقم ریلیز کر دی اور اس رقم میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کمیشن کے طور پر وزیرِ اعلی علی امین گنڈا پور سمیت متعدد افراد کو ادا کی گئی۔
SEE ALSO: کے پی کابینہ سے وزیر کی برطرفی، عمران خان کا معاملہ عوام میں نہ لانے کی ہدایتعرفان کا کہنا ہے کہ شکیل خان کے استفسار پر متعلقہ سیکریٹری نے بتایا کہ یہ رقم وزیر اعلی کے احکامات پر ریلیز کی گئی ہے۔
شکیل خان نے اس سلسلے میں مانیٹرنگ کمیٹی کو چار صفحات پر مشتمل ایک خط بھی لکھا ہے جس میں کمیشن سے مستفید ہونے والے افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔
خط کے مطابق مستفید ہونے والوں میں وزیرِ اعلٰی کو 20 کروڑ روپے اور وزیرِ اعلٰی کے کہنے پر مقتدر ادارے کو 10 کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔
شکیل خان کا کہنا ہے کہ سیکریٹری کے بقول تین کروڑ ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور ڈھائی کروڑ سیکریٹری خزانہ کو ادا کیے گئے۔
شکیل خان نے تصدیق کی کہ انہیں پہلی بار تین کروڑ اور بعد میں پانچ کروڑ کی ادائیگی کی کوشش کی گئی تھی۔
بیرسٹر سیف کی تردید
وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے شکیل خان کے وزارت سے برطرفی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس تین رکنی کمیٹی کی سفارش پر برطرف کیا گیا ہے جو پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کے مشورے پر بنائی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی شکیل خان کے معاملے پر پارٹی رہنماؤں کو وزیر اعلی کے خلاف بیان بازی سے منع کر دیا ہے اور انہوں نے ممبران قومی اسمبلی عاطف خان اور جنید اکبر خان کو ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل طلب کر لیا ہے۔
شکیل خان اور علی امین گنڈاپور کے درمیان خاموش جنگ
ماہرین کے مطابق شکیل خان اور وزیرِ اعلٰی کے درمیان خاموش جنگ کی ابتدا اس وقت شروع ہوئی جب سابق سیکریٹری کمیونی کیشن اینڈ ورکس نے انہیں(شکیل خان) بتائے بغیر پچھلے مالی سال کے اختتام سے قبل مئی اور جون کے مہینوں کے لیے سات ارب اور 87 کروڑ سے زائد رقم مختلف نجی تعمیراتی کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کو جاری کر دی۔
اس ریلیز شدہ رقم میں شکیل خان کے تحریر شدہ خط کے مطابق 77 کروڑ روپے کمیشن کے طور پر وصول کیے گئے۔
شکیل خان کا کہنا ہے کہ سابق سیکریٹری نے پہلے انہیں تین کروڑ اور بعد میں پانچ کروڑ روپے دینے کی پیش کش کی تھی مگر انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس رقم کے علاوہ سیکریٹری نے انہیں ایک نئی گاڑی دینے کا بھی کہا تھا۔
پشاور کے سینئر صحافی شاہد حمید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شکیل خان نے ان کے محکمے کی بدعنوانیوں کو عمران خان کے نوٹس میں لانے کے لیے ان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں یکم اگست کو ملاقات کی اور عمران خان کی ہدایات کے مطابق دوسرے دن دو اگست کو پشاور پریس کلب ہی میں پریس کانفرنس کی گئی جس میں وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف بھی موجود تھے۔
SEE ALSO: پاکستانی پشتون سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائی کے مخالفشکیل خان کی درخواست پر عمران خان کے حکم پر خیبر پختونخوا حکومت نے اگست کے پہلے ہفتے میں تین رکنی نگراں کمیٹی بنائی گئی جسے بعد میں گڈ گورننس کمیٹی کا نام دیا گیا۔
اس کمیٹی میں ابتدائی طورپر قاضی انور ایڈووکیٹ، شاہ فرمان اور ایم این اے جنید اکبر کو شامل کیا گیا لیکن بعد میں جنید اکبر کو آؤٹ کرتے ہوئے بریگیڈئیر (ر) مصدق عباسی کوشامل کیا گیا۔ مصدق عباسی نیب کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
شاہد حمید نے بتایا کہ مذکورہ کمیٹی نے اگست کے دوسرے ہفتے میں شکیل خان کو تحقیقات کے لیے بلایا اوران سے مختلف سوالات کے جوابات مانگے جن کے زبانی کے علاوہ شکیل نے تحریری طور پر بھی جواب جمع کرائے۔
اس کمیٹی کی سفارشات پر شکیل خان کو جمعرات کی رات وزیرِ اعلی نے کابینہ سے برطرف کیا لیکن کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔
کمیٹی کے فیصلے سے چند لمحے قبل شکیل خان نے وٹس ایپ کے ذریعے وزیرِ اعلی کو اپنا استعفی بھجوایا جو جمعے کو منظوری کے لیے گورنر کو بھجوا دیا گیا۔
شکیل خان کون ہیں؟
خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے شکیل خان کا شمار پی ٹی آئی کے سرکردہ اور متحرک رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ 2013 سے اب تک تیسری بار مسلسل صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔
شکیل خان سابق وزرائے اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان کی کابینہ کا بھی حصہ رہ چکے ہیں اور ان کا تعلق قومی اسمبلی کے موجودہ پی ٹی آئی ارکان عاطف خان اور شہرام خان ترکئی پر مشتمل حریف گروپ سے ہے۔