بھارت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران قدرتی یورینئیم کی چوری کے مسلسل واقعات پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ملک کےجوہری تنصیبات کے سیفٹی اینڈ سیکیورٹی کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے
یاد رہے کہ رواں برس مئی میں ریاست مہاراشٹرا میں پولیس نے دو افراد سے سات کلوگرام قدرتی یورینئیم برآمد کی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس یورینئیم کی غیر قانونی منڈی میں قیمت 21 کروڑ بھارتی روپے کے برابر بتائی جاتی ہے۔
بھارت میں قدرتی یورینئیم کی چوری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور گزشتہ چند عشروں سے مسلسل ایسے واقعات رپورٹ ہوتے آ رہے ہیں۔
اس سے پہلے نوے کے عشرے سے لے کر 2003، 2008، 2013، 2016 اور 2019 میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
سینٹر آف پبلک انٹیگریٹی نے 2015 کی اپنی ایک رپورٹ میں ایسے چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ 2003 میں جہادی گروہ، جماعت المجاہدین کے ارکان سے بنگلہ دیش کے ایک گاؤں میں 225 گرام یورینئیم برآمد کی گئی۔ یہ مواد یورینئیم کی کان میں کام کرنے والے ایک ملازم سے حاصل کیا گیا تھا اور بھارتی حکام تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ یورینئیم مشرقی بھارت میں جادوگوڈا کی کان سے حاصل کی گئی تھی۔ اس یورینئیم کو، مبینہ طور پر، یہ جہادی گروپ 'ڈرٹی بم' بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
SEE ALSO: بھارت: سات کلو یورینیم غیر متعلقہ افراد کے پاس کیسے پہنچی، تحقیقات 'این آئی اے' کے سپردایسے ہی دو واقعات 2008 میں سامنے آئے جن میں بھارت کے اٹامک منرل ڈویژن کے ایک ملازم کا بیٹا ملوث تھا۔
سنہ 2013 کے ایک واقعے میں بائیں بازو کے ایک گوریلا گروپ کے چند اہلکاروں کو پولیس نے تب حراست میں لیا تھا، جب ایک سرکاری ملنگ (Milling) کامپلیکس سے یورینئیم چرا کر اسے روایتی آتشگیر مادے کے ساتھ ملا کر وہ مبینہ طور پر بم بنا رہے تھے۔
چوری ہونے والا مادہ کتنا خطرناک ہے؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ بھارت میں درجنوں واقعات میں پکڑی جانے والی یورینئیم، قدرتی یورینئیم ہے اور اگرچہ یہ تابکار مادہ ہے مگر اس کی تابکاری افزودہ یورینئیم سے کہیں کم ہوتی ہے۔
امریکہ کی ٹفٹس یونی ورسٹی کے فلیچر سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی میں رائزنگ پاور اینڈ ایلاینسز پراجیکٹ میں پوسٹ ڈاکٹورل سکالر فرینک او ڈونیل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں اکثر کیسز میں چوری شدہ یورینئیم، قدرتی یورینئیم ہوتی ہے۔ بقول ان کے، یہ یورینئیم اگرچہ تابکاری پیدا کرتی ہے لیکن یہ اس قدر خطرناک نہیں ہوتی جو جوہری توانائی پیدا کرنے والے ایندھن، یا جوہری ہتھیاروں میں پائی جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں نیوکلئیر ڈاکٹرائن کے ماہر فرینک او ڈونیل نے قدرتی یورینئیم اور اس کی افزودگی کے حوالے سے اپنائے جانے والے مختلف مراحل کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’یورینئیم اپنی قدرتی حالت میں دیگر عناصر کے ساتھ ملتی ہے اور اسے کانکنی کے عمل کے بعد ملنگ (milling) کے عمل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اس حالت میں یہ یورینئیم ہیگزا فلورائڈ یا ’ییلو کیک‘ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ قدرتی طور پر پائی جانے والی یورینئیم میں دو آئیسوٹوپ موجود ہوتے ہیں۔ انہیں U-235 اور U-238 کہا جاتا ہے۔ ان میں سے U-235 قدرتی طور پر صرف 0.7 فیصد ہوتی ہے۔ جوہری ایندھن کے لیے قدرتی یورینئیم میں سے U-235 آئیسوٹوپ کی مقدار کو بڑھایا جاتا ہے۔’’
Your browser doesn’t support HTML5
فرینک کے بقول، جوہری توانائی پیدا کرنے والے ری ایکٹرز میں استعمال کرنے کے لیے U-235 کی مقدار 0.7 فیصد سے بڑھا کر 3 سے 5 فیصد تک کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر 20 فیصد سے کم افزودہ یورینئیم نیوکلئیر ری ایکٹرز میں استعمال ہوتی ہے۔ ان کے بقول، جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی یورینئیم 90 فیصد تک افزودہ ہوتی ہے۔
ان کے مطابق، ابھی تک بھارت میں چوری کے واقعات میں پکڑی جانے والی یورینئیم سوائے 1994 کے ایک واقعے کے عام طور پر قدرتی یورینئیم ہی تھی۔
1994 کے واقعے میں پکڑی جانے والی یورینئیم کچھ حد تک صاف تھی، اور بقول فرینک، یہ ’ییلو کیک‘ ہو سکتی ہے۔
لندن کے کنگز کالج میں وزٹنگ ریسرچ فیلو ڈاکٹر طاہر محمود آزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قدرتی یورینئیم کے بہت زیادہ طبی نقصانات نہیں ہیں۔ لیکن، بقول ان کے، اس کی ری پراسیسنگ کے ذریعے اسے خاص مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے ریڈیو ڈسپرسل ڈیوائسز ہیں، جنہیں ہم آر ڈی ڈی کہتے ہیں۔ اسے بنانے میں بھی یہ یورینئیم استعمال کی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ آر ڈی ڈی، جنہیں 'ڈرٹی بم' بھی کہا جاتا ہے، میں تابکاری مادے کو روایتی آتش گیر مادے کے ساتھ ملا کر بم بنایا جاتا ہے۔
ان واقعات کے مسلسل رونما ہونے کی وجوہات
ڈاکٹر طاہر محمود نے بھارت میں ان واقعات کے مسلسل رونما ہونے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، ان کے مطابق، اس کی وجہ بھارت کے جوہری نظام کے ریگولیٹری اور مانیٹرنگ کے نظام میں خامیوں کا موجود ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس وقت 23 جوہری توانائی کے ری ایکٹر کام کر رہے ہیں جب کہ، بقول ان کے، 26 نئے ری ایکٹر بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں اتنا بڑا جوہری پروگرام ہوگا تو وہاں سیکیورٹی کے مسائل سامنے آتے رہیں گے۔
فرینک او ڈونیل نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی یورینئیم کی کانوں اور مِلنگ (MILLING) کی تنصیبات میں سیکیورٹی کی خامیاں موجود ہیں۔ انہوں نے 2013 میں بھارتی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں ملک کی سینٹرل انڈسٹریل سیکیورٹی فورس، جو جوہری مادے اور توانائی کی تنصیبات کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس فورس کی افرادی قوت، تربیت اور ساز و سامان اور آلات میں خامیاں ہیں۔
ڈاکٹر طاہر نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے کے بعد بھارت کے بیس کے قریب ممالک سے معاہدے ہو چکے ہیں جہاں سے اس نے جوہری ایندھن اور ٹیکنالوجی حاصل کرنی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسے میں بھارت کیسے اتنے بڑے جوہری پروگرام کو کنٹرول کر سکے گا اور اس کے سیفٹی اور سیکیورٹی کے ضوابط کیا ہوں گے؟
عالمی سطح پر کیا ردعمل سامنے آیا؟
فرینک او ڈونیل نے بتایا کہ سینٹر آف پبلک انٹیگریٹی کی 2015 کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ امریکہ اور ایک این جی او 'نیوکلئیر تھریٹ انی شی ایٹو' نے بھارت کے ساتھ براہ راست رابطوں میں ملک کی جوہری سیکیورٹی کو مضبوط کرنے کا کہا تھا، لیکن رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی جانب سے ان کوششوں کی مزاحمت کی گئی۔
اس رپورٹ کے مطابق، نیوکلئیر تھریٹ انی شی ایٹو نے ان 25 ممالک میں جہاں ایک جوہری بم کے برابر بھی مواد موجود ہے، سیکیورٹی طریقہ کار میں بھارت کو 23ویں درجے پر رکھا۔ اس تجزیے میں بھارت سے نیچے صرف ایران اور جنوبی کوریا کی کارکردگی رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں جوہری سیکیورٹی سے متعلق خطرات ملک میں بدعنوانی کے کلچر سے وابستہ ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’’ترسیل کی سیکیورٹی، اجزا کے کنٹرول، اکاؤنٹنگ اور اندرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں، جیسے اہلکاروں کی جانچ اور مشکوک رویے پر لازمی رپورٹ کرنے کے نظام میں کمزوریاں ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ماضی میں بھی ان واقعات پر بھارت سے کئی بار اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بذریعہ ای میل بتایا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1540 کے تحت پابند ہے کہ وہ ’’موثر اقدامات کے ذریعے داخلی طور پر ایسا انتظام کرے جس سے جوہری، کیمیکل یا حیاتیاتی ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے نظام کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے، اس میں ان میں استعمال ہونے والے اجزا کا بھی موثر کنٹرول شامل ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات بھارت کی عالمی ایٹمی کنٹرول کی ایجنسی آئی اے ای اے کے جوہری اجزا کی حفاظت سے متعلق کنوینشن سے بھی متصادم ہیں۔
کیا جوہری سیکیورٹی کے معاملات پر پاکستان اور بھارت سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے؟
وائس آف امریکہ کی جانب سے اس سوال پر کہ پاکستان کی جانب سے یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ ان واقعات کے باوجود عالمی طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام کی سیکیورٹی پر زیادہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں، فرینک او ڈونیل نے کہا کہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت میں سامنے آنے والے تقریباً تمام واقعات قدرتی یورینئیم کے حوالے سے تھے۔ جب کہ، ان کے بقول، پاکستان میں اے کیو خان نیٹ ورک کے ذریعے جوہری پھیلاؤ کی نوعیت اس سے کہیں زیادہ سنگین تھی، جس میں ایسے عناصر اور ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ ہوا، جو کسی بھی ریاست کو جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان کی ایسی فوجی تنصیبات کی سیکیورٹی کے بارے میں، جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہاں جوہری ہتھیار موجود تھے، دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کے خدشات سامنے آتے رہے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ایسے کسی دہشت گردانہ حملے کی نوعیت اور انتظام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں، مبینہ طور پر، اندرونی مدد حاصل تھی۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے بھارتی حکومت کا موقف حاصل کرنے کے لیے ملک کی وزارت داخلہ کے حکام، جن میں سیکریٹری داخلہ، داخلی امور کی وزارت کی سیکریٹری اور داخلی سیکیورٹی کے سپیشل سیکریٹری سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا مگر اس رپورٹ کے چھپنے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
توانائی ایکسپرٹ اور دہلی کے ایک سینئر صحافی، اکُو شری واستو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے گفتگو میں کہا کہ بھارت میں یورینیم چوری کی متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں لیکن یہ کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے کہ کوئی اس یورینیم کی بنیاد پر اپنا کوئی پاور پلانٹ تیار کر لے یا کسی اور خطرناک کام میں استعمال کر سکے۔ ان کے مطابق ملک میں کئی مقامات پر کانوں سے یورینیم کی کھدائی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں سیکورٹی انتظامات بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ یورینیم چوری کر لیتے ہیں۔
ان کے بقول اس میں کچھ مقامی مافیا ملوث ہوتے ہیں اور بعض اوقات کچھ گینگ بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو یورینیم چوری ہوتی ہے وہ پروسسڈ نہیں ہوتی بلکہ وہ قدرتی یورینیم ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ایک ہزار کلو یورینیم میں 65 گرام پروسسڈ یورینیم نکلتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یورینیم نکالنے والی کانوں پر سخت سیکورٹی ہوتی ہے تاہم بعض اوقات وہاں کام کرنے والے دوسروں سے مل جاتے ہیں اور یورینیم چوری کروا دیتے ہیں۔
2015 میں دہلی میں واقع تھنک ٹینک اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن نے بھارت کی جوہری سیکیورٹی پر کی گئی ایک تحقیق میں ملک کے اٹامک انرجی کے محکمے کی جانب سے اہلکاروں کی جانچ کے پروگرام، پرسنل ری لائبلٹی پروگرام (پی آر پی) کے بارے میں لکھا گیا کہ یہ بہت احسن طریقے سے انجام دیا گیا ہے۔
تحقیق کی مصنف ڈاکٹر راجیشوری پلائی راجاگوپالن نے لکھا کہ یہ پروگرام اندرون ملک خطرے سے نمٹنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی آر پی نہ صرف جامع ہے بلکہ بہت وسیع پیمانے پر اپنایا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ پروگرام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر ملازم پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے اور اس وجہ سے کبھی کسی واقعے میں یہ ثابت نہیں ہوا کہ بھارت کی جوہری تنصیبات میں پی آر پی کبھی ناکام ہوا ہو۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے رواں برس جون میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت میں بین الاقوامی نگرانی کی اشیا سے متعلق کڑے قوانین پر مبنی ریگولیٹری نظام موجود ہے، جو، بقول ان کے، ہمارے بے عیب عدم پھیلاؤ کی ساکھ میں نمایاں ہے اور جسے بین الاقوامی برادری بھی تسلیم کرتی ہے۔