پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں ہفتے موسلا دھار بارشوں سے کراچی اور حیدرآباد میں 'اربن فلڈنگ' کا خدشہ ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ ادارے الرٹ رہیں۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق خلیج بنگال سے مون سون کا کم دباؤ جمعرات کی شام سندھ میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ جس کے باعث رواں ہفتے جمعرات سے ہفتے تک سندھ، جنوبی پنجاب اور مشرقی بلوچستان میں مون سون ہوائیں شدت کے ساتھ داخل ہوں گی۔
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق بارشوں کا یہ سسٹم کافی طاقت ور نظر آتا ہے جس سے زیریں سندھ میں خاص طور پر زیادہ بارشیں متوقع ہیں۔
فوج کی مدد سے نالوں کی صفائی شروع
وفاقی حکومت کی ہدایات پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے فوج کی مدد سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں برساتی نالوں کی صفائی کا کام پیر سے شروع کر دیا ہے۔
کراچی میں گزشتہ ہفتے ہونے والی بارشوں نے کئی علاقوں میں سیلابی کیفیت پیدا کردی تھی جس کے سبب شہریوں کو بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں شہریوں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اور پھر دوسرے مرحلے میں طویل المدتی بنیادں پر اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا۔
چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ فوج کو 'ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010' کے تحت سول اداروں کی مدد کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول کور کمانڈر کی قیادت میں فوج کی فائیو کور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے ساتھ مل کر اس موسم میں پھیلی تباہی کو کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ تاکہ لوگوں کو آنے والی بارشوں میں کسی حد تک ریلیف دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام اپنی استعداد سے پہلے ہی زیادہ کام کر رہا ہے۔
SEE ALSO: کراچی میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فوج طلبان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ابتدائی طور پر عارضی نوعیت کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ کراچی کا یہ مسئلہ اس کام سے مکمل طور پر حل نہیں کیا جاسکتا۔
چیئرمین این ڈی ایم اے کے بقول کراچی شہر کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، آبادی کے بے حد پھیلاؤ اور نالوں پر تجاوزات جیسے گھمبیر مسائل ہیں۔ ان کے بقول سیوریج اور برساتی پانی کا نظام خلط ملط ہے۔ اس صورتِ حال میں طویل المدت منصوبہ بندی سے مسئلے کا حل نکالنا ضروری ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں جو رواں سال ستمبر کے وسط سے شروع ہونے کی توقع ہے، شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مختلف اداروں کے درمیان اس معاملے پر اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی اور فزیبلٹی رپورٹ سامنے آنے کی صورت میں اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کام شروع ہو سکتا ہے۔
چئیرمین نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے 'اسپارکو' سے پانی کے بہاؤ کے راستوں سے متعلق تفصیلی تجزیہ حاصل کر کے سیوریج اور برساتی پانی کی نکاسی کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بہتر بنانے اور کراچی میں غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے۔
فوجی حکام اور صوبائی حکومت کے درمیان مشاورت مکمل
سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے این ڈی ایم اے کو جاری کردہ ہدایات پر تنقید کی ہے۔
ان کے بقول نالوں کی صفائی سے متعلق این ڈی ایم اے، فوج کے اعلیٰ افسران اور صوبائی حکومت کے درمیان مشاورت عید سے قبل ہی مکمل کر لی گئی تھی۔ جس کے بعد این ڈی ایم کے ذریعے تین بڑے نالوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جن میں گجر نالہ، اورنگی نالہ اور سی بی ایم نالہ شامل ہیں۔
ترجمان وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کی حمایت سے ایسے تمام مقامات سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا جو برساتی پانی کی گزرگاہیں ہیں۔
کراچی میں حالیہ مون سون کے تین اسپیل ہو چکے ہیں۔ جس میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 63 سے 86 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ شہر کے موجودہ انفراسٹرکچر میں 30 منٹ کی بارش میں 25 سے 30 ملی میٹر تک برداشت کرنے کی گنجائش ہے۔
حکام کے مطابق کئی علاقوں میں وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے جاری ‘ریپڈ بس پراجیکٹ گرین لائنز’ کے انفراسٹرکچر کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
کور کمانڈر کراچی اور چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ وہ نالوں اور گرین لائن منصوبے کے ڈیزائن کے نقائص کی اصلاح کے لیے حکومت سندھ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ جب کہ حکومت سندھ نے بھی یقین دلایا کہ نالوں کے ساتھ تجاوزات کے خاتمے میں معاونت کی جائے گی۔
واضح رہے کہ صوبائی دارالحکومت میں شدید بارشوں سے تباہی اور ملک کے معاشی مرکز کہلائے جانے والے کراچی شہر میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہونے پر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم صوبائی حکومت کے وزراء اور مشیروں کا کہنا ہے کہ میڈیا پر ہونے والی تنقید یکطرفہ اور نامناسب ہے۔
کراچی میں بارشوں کے موسم میں معمولات زندگی متاثر ہونا نئی بات نہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ شہر میں یومیہ پیدا ہونے والے 20 ہزار ٹن کچرے کو ٹھیک طریقے سے ٹھکانے نہ لگانا، ندی نالوں کی صفائی نہ ہونا، پختہ تجاوزات، اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے کی کمی اور بلدیاتی اداروں کی نااہلی قرار دی جاتی ہے۔