امریکہ شامی باغیوں کی تربیت کے منصوبے سے دستبردار

فائل

'پینٹاگون' کا کہنا ہے کہ امریکہ داعش کے خلاف شام میں اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہا ہے اور اب حزبِ اختلاف کے "منتخب" رہنماؤں اور گروہوں کی "صلاحیتوں اور استعدادِ کار" میں اضافہ کیا جائے گا۔

امریکہ نے شام میں داعش کے مقابلے کے لیے اپنی حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا اعلان کرتے ہوئے شام کے معتدل مزاج باغیوں کو لڑائی کی تربیت دینے کا منصوبہ ختم کردیا ہے۔

امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' کا کہنا ہے کہ امریکہ داعش کے خلاف شام میں اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہا ہے اور اب حزبِ اختلاف کے "منتخب" رہنماؤں اور گروہوں کی "صلاحیتوں اور استعدادِ کار" میں اضافہ کیا جائے گا۔

'پینٹاگون' نے جمعے کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان گروہوں کی کارکردگی پر نظر رکھے گا اور داعش کے مقابلے پر انہیں فضائی مدد فراہم کرے گا۔

بیان کے مطابق تبدیل شدہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں شام میں داعش پر قابو پانے کی مقصد کی جانب اب تک ہونے والی پیش رفت کو جاری رکھنے پر توجہ مرکوز کی جاسکے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں معتدل نظریات کےحامل باغی جنگجووں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کے منصوبے کی راہ میں حائل "مشکلات" کا امریکہ کو بخوبی ادراک ہے جس کے باعث اس منصوبے میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔

امریکہ نے داعش کےمقابلے پر شامی باغیوں کی عسکری تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی کے منصوبے کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم مختص کی تھی۔

لیکن کئی ماہ کی کوششوں کے بعد خود امریکی حکام نے اعتراف کیا تھا کہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے اور امریکہ کے تربیت یافتہ "بہت کم" جنگجو شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

'پینٹاگون' کی جانب سے جمعے کو جاری بیان میں امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر نے کہا ہے کہ وہ منصوبے کے تحت کی جانے والی ابتدائی کوششوں سے مطمئن نہیں تھے جس کے باعث شام میں مقاصد کے حصول کے لیے کئی دیگر منصوبے بھی وضع کیے گئے ہیں۔

ایش کارٹر کے بقول شمالی شام میں کرد ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر داعش کےخلاف امریکی فضائی کارروائیوں ایک کامیاب حکمتِ عملی ثابت ہوئی ہے اور یہ ایک ایسی مثال ہے جس پر شام کے دیگر علاقوں میں دیگر گروہوں کے ساتھ بھی عمل ہونا چاہیے۔

امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کے مطابق نئی حکمتِ عملی کے تحت اردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عسکری تربیت کی فراہمی کے لیے امریکہ کی جانب سے شامی باغیوں کی بھرتی کا عمل ختم کیا جارہا ہے۔

اس کے برعکس، اخبار کے مطابق، ایک نسبتاً چھوٹا تربیتی مرکز ترکی میں قائم کیا جائے گا جہاں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور کمانڈروں کو جنگی میدان میں استعمال کیے جانے والے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی کا استعمال سکھایا جائے گا تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر اتحادی افواج کی فضائی مدد طلب کرسکیں۔

ایش کارٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ شام میں داعش کو حقیقی شکست دینے کا انحصار وہاں کے مقامی، پرعزم اور باصلاحیت زمینی دستوں کی کامیابی پر منحصر ہے۔

امریکی وزیرِدفاع کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ نئے منصوبے کے تحت آگے چل کر شام میں داعش کا مقابلہ کرنے والی قوتوں کی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا جس سے بالآخر داعش کی حتمی شکست کا مقصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

امریکہ کی جانب سے شام میں داعش کے خلاف اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس نے بھی شامی حکومت کے تعاون سے داعش پر فضائی حملے شروع کردیے ہیں۔

روسی حکام کا موقف ہے کہ ان حملوں کا ہدف داعش کے ساتھ ساتھ دیگر شدت پسند گروہ بھی ہیں۔ لیکن امریکہ اور شامی حزبِ اختلاف نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی طیارے داعش کے بجائے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔