اگر آئندہ ہفتوں کے اندر اِس سمجھوتے کو حتمی شکل دینے میں ناکامی کا سامنا رہا، تو، یہ معاملہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی طرف سے2014ء کے بعد افغانستان میں موجود رہنے کی تیاری کی راہ میں آڑے آئے گا: وائٹ ہاؤس ترجمان
واشنگٹن —
امریکہ نے افغانستان پر زور دیا ہے کہ اِس سال کے آخر تک وہ امریکہ کے ساتھ ایک نئے سلامتی کےمعاہدے پر دستخط کردیا جائے، جِس بات سے افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ تعلقات میں ایک اور رخنے کا اندازہ ہوتا ہے۔
امریکہ اُس وقت ششدر رہ گیا جب جمعرات کی صبح مسٹر کرزئی نے حیران کُن طور پر امریکی اور افغان اہل کاروں کو بتایا کہ باہمی سلامتی کے اِس معاہدے پر اپریل 2014ء میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے بعد ’دستخط ہو سکتے ہیں‘۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کہا ہے کہ اگر آئندہ ہفتوں کے دوران اِس سمجھوتے کو حتمی شکل دینے میں ناکامی کا سامنا رہا، تو، بقول اُن کے، ’یہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی طرف سے2014ء کے بعد افغانستان میں موجود رہنے کی تیاری کی راہ میں آڑے آئے گا‘۔
مسٹر کرزئی کی طرف سے معاہدے پر دستخط کےمعاملے کو مؤخر کرنے کا یہ اچانک فیصلہ ایسے میں سامنے آیا جب وہ 2500 قبائلیوں، برادری کے حضرات اور منتخب لیڈروں سے اپنے خطاب میں پہلے ہی اس معاہدے کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے۔
یہ کہتے ہوئے کہ اِس معاملے میں، ماسوائے ایران، افغانستان کے سارے اہم اتحادی ہمسایوں کی حمایت حاصل ہے، اجتماع سے، جسے ’لویہ جرگہ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، مسٹر کرزئی نے تاکید کی کہ سکیورٹی معاہدے کے حق میں ووٹ دیا جائے۔
یہ معاہدہ یکم جنوری، 2015ء سے نافذ العمل ہوگا، جس کی رو سے امریکی فوجیوں اور سویلین اہل کاروں کو کم از کم اگلےعشرے یا ممکنہ طور پر اُس سے بھی زیادہ مدت کے لیے افغانستان میں رکھا جائے گا۔
اپنی تقریر میں، مسٹر کرزئی نے امریکی صدر براک اوباما کے مراسلے کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے جِن میں وعدہ کیا گیا ہے کہ نئے سکیورٹی سمجھوتے کے تحت، ’افغانوں کو اپنے گھروں میں حرمت اور عزت سے پیش آیا جاتا رہے گا‘۔
مسٹر اوباما کا مراسلہ، جسے حکومتِ افغانستان نے جاری کیا ہے، اُس میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام کے تحفظ میں مدد دینے کے سلسلے میں متعدد امریکی ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
سمجھوتے کے متن کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجی صرف غیر معمولی حالات میں ہی افغان گھروں کے اندر داخل ہو سکیں گے، جو معاملہ سمجھوتا طے کرنے کے لیے تقریباً سال بھر سے جاری مذاکرات کے دوران، اختلاف رائے کا موضوع بنا رہا۔
امریکہ اُس وقت ششدر رہ گیا جب جمعرات کی صبح مسٹر کرزئی نے حیران کُن طور پر امریکی اور افغان اہل کاروں کو بتایا کہ باہمی سلامتی کے اِس معاہدے پر اپریل 2014ء میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے بعد ’دستخط ہو سکتے ہیں‘۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کہا ہے کہ اگر آئندہ ہفتوں کے دوران اِس سمجھوتے کو حتمی شکل دینے میں ناکامی کا سامنا رہا، تو، بقول اُن کے، ’یہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی طرف سے2014ء کے بعد افغانستان میں موجود رہنے کی تیاری کی راہ میں آڑے آئے گا‘۔
مسٹر کرزئی کی طرف سے معاہدے پر دستخط کےمعاملے کو مؤخر کرنے کا یہ اچانک فیصلہ ایسے میں سامنے آیا جب وہ 2500 قبائلیوں، برادری کے حضرات اور منتخب لیڈروں سے اپنے خطاب میں پہلے ہی اس معاہدے کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے۔
یہ کہتے ہوئے کہ اِس معاملے میں، ماسوائے ایران، افغانستان کے سارے اہم اتحادی ہمسایوں کی حمایت حاصل ہے، اجتماع سے، جسے ’لویہ جرگہ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، مسٹر کرزئی نے تاکید کی کہ سکیورٹی معاہدے کے حق میں ووٹ دیا جائے۔
یہ معاہدہ یکم جنوری، 2015ء سے نافذ العمل ہوگا، جس کی رو سے امریکی فوجیوں اور سویلین اہل کاروں کو کم از کم اگلےعشرے یا ممکنہ طور پر اُس سے بھی زیادہ مدت کے لیے افغانستان میں رکھا جائے گا۔
اپنی تقریر میں، مسٹر کرزئی نے امریکی صدر براک اوباما کے مراسلے کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے جِن میں وعدہ کیا گیا ہے کہ نئے سکیورٹی سمجھوتے کے تحت، ’افغانوں کو اپنے گھروں میں حرمت اور عزت سے پیش آیا جاتا رہے گا‘۔
مسٹر اوباما کا مراسلہ، جسے حکومتِ افغانستان نے جاری کیا ہے، اُس میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام کے تحفظ میں مدد دینے کے سلسلے میں متعدد امریکی ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
سمجھوتے کے متن کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجی صرف غیر معمولی حالات میں ہی افغان گھروں کے اندر داخل ہو سکیں گے، جو معاملہ سمجھوتا طے کرنے کے لیے تقریباً سال بھر سے جاری مذاکرات کے دوران، اختلاف رائے کا موضوع بنا رہا۔