خشک سالی، سیلاب، طوفان اور موسم میں اچانک تبدیلیاں، کہا جاتا ہے کہ یہ سب آب و ہوا کی تبدیلی کا تحفہ ہیں
واشنگٹن —
جن انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آب و ہوا تبدیل ہو رہی ہے ان میں زراعت کا کردار بہت اہم ہے۔ تیس فیصد تک گرین ہاؤس گیسیں زرعی سرگرمیوں کی وجہ سے خارج ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، درجۂ حرارت میں اضافےسے زرعی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ لیکن ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت میں ایجاد و اختراع کی بدولت غذائی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی آب و ہوا پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
خشک سالی، سیلاب، طوفان اور موسم میں اچانک تبدیلیاں، کہا جاتا ہے کہ یہ سب آب و ہوا کی تبدیلی کا تحفہ ہیں۔ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ ان واقعات سے نہ صرف لوگوں کی روز مرہ زندگی متاثر ہوتی ہے، بلکہ زراعت پر بھی برا اثر پڑتا ہے جس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے ۔
2012ء میں امریکہ کی وسط مغربی ریاستوں میں سخت گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے غذائی پیداوار کم ہو گئی۔ امریکہ کے مشرقی ساحل پر ہریکین سینڈی نے تباہی مچائی۔ 2011ء میں، صومالیہ میں خشک سالی سے لوگ مصائب کا شکار ہوئے۔ 2011ء میں روس میں گندم کے کاشتکاروں کو انتہائی شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ۔
صرف یہی نہیں، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے حالات میں اضافہ ہو جائے گا۔
ڈینیئل نیرنبرگ تحقیقی گروپ فوڈ ٹینک کے بانیوں اور انوویشنز اِن سسٹین ایبل ایگریکلچر نامی رپورٹ لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کل بہت سے طریقوں سے زراعت آب و ہوا کی تبدیلی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چونکہ صنعتی پیمانے پر کی جانے والی زراعت میں بہت زیادہ وسائل، زمین سے نکلنے والا ایندھن جیسے گیس، تیل اور کوئلہ، استعمال ہوتا ہے، اس لیے زراعت آب و ہوا میں تبدیلی کا بہت بڑا محرک بن جاتی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے 25 سے 30 فیصد بخارات ، زرعی شعبے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ غذا کی تیاری میں استعمال ہونے والے تمام اجزا کو دیکھیں ، جیسے کیمیائی کھاد، کرم کش ادویات، اینٹی بایوٹک کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن، غذا کی پراسسنگ، تو پتہ چلے گا کہ ان تمام چیزوں کا انحصار زمین سے نکلنے والے ایندھن پر ہے۔‘‘
خاص طور سے مویشی ماحول پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔ نیرنبرگ کہتی ہیں کہ چونکہ دنیا بھر میں، اور خاص طور سے برازیل، چین اور بھارت میں گوشت کا خرچ بڑھ رہا ہے، اس لیے ترقی پذیر ملکوں میں صنعتی پیمانے پر جانوروں کے فارم قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان تمام فارموں یا فیکٹریوں میں ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ ان کی پیداوار کی ترسیل کے لیے ٹرانسپورٹیشن استعمال ہوتی ہے۔ غرض ان تمام چیزوں سے آب و ہوا کی تبدیلی میں اضافہ ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی طریقوں میں رد و بدل کے ذریعے ، ماحول پر پڑنے والے مضر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضرورتیں بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
اس میں زمین اور پانی کے استعمال کے چھ طریقے بتائے گئے ہیں۔ ان طریقوں میں ایگروفارسٹری یا زیرِ کاشت زمینوں پر درخت لگانا شامل ہے تا کہ زمین کے کٹاؤ کو کم کیا جائے، ہوا سے کاربن ڈائی آکسائڈ کو دور کیا جائے اور مٹی کو صحت مند رکھا جائے۔ درختوں سے مویشیوں کو سایہ بھی ملے گا اور جنگلی حیات کو رہنے کی جگہ میسر ہوگی۔
رپورٹ کی ایک اور سفارش یہ ہے کہ شہری علاقوں میں فصلیں اگائی جائیں۔ نیرنبرگ کہتی ہیں کہ ’’شہروں میں غذائی اشیاء اگانے سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچ کم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح، شہروں میں رہنے والے چھتوں پر یا گھروں کے صحن میں پیدا کی ہوئی اشیاء خرید سکتے ہیں۔ اس طرح ٹرانسپورٹیشن کا خرچ کم ہو جائے گا۔ آپ اپنے شہر کو زیادہ سرسبز بنائیں گے اور کاربن کو پھیلنے سے روکیں گے۔ اس طرح آپ کا شہر محض کنکریٹ کی عمارتوں پر مشتمل نہیں ہو گا بلکہ یہ ایسی جگہ ہوگی جس سے غذا کی پیداوار میں مدد ملے گی۔‘‘
پانی کو محفوظ کرنے کے نئے طریقے بھی دریافت کیے گئے ہیں۔ ان میں شہروں میں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا، آبپاشی کے نئے طریقے استعمال کرنا، اور بارشی پانی کو جمع کرنا اور اسے محفوظ کرنا شامل ہے۔ نیرنبرگ کہتی ہیں کہ ملک کی اپنی فصلوں اور مویشیوں کو استعمال کرنا بہتر ہوتا ہے کیوں کہ ان میں اس علاقے کی مخصوص آب و ہوا کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ فصلیں بہت زیادہ درجۂ حرارت میں پھل پھول سکتی ہیں اور یہ درجہ ٔ حرارت بڑھنے کی صورت میں بیماریوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔
نیرنبرگ کے مطابق اگلے پچاس برسوں کے دوران ، افریقی کاشتکاروں میں ماحول سے 50 ارب ٹن کاربن اکٹھا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ رپورٹ میں دی ہوئی تمام سفارشات پر عمل کرنا ممکن ہے، ان پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فنڈز اور عطیات دینے والے ملک اور ترقیاتی ایجنسیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں، عام طور سے ان چیزوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتیں جن پر پہلے سے عمل ہو رہا ہے۔ اکثر بعض نئی قسم کی ٹکنالوجی کے لیے فنڈز حاصل کرنا آسان ہوتا ہے بجائے اس کے کہ ان چیزوں میں پیسہ لگایا جائے جن پر کئی عشروں سے بلکہ صدیوں سے کامیابی سے عمل ہوتا رہا ہے۔
ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے زرعی شعبے اور دنیا میں غذائی اشیاء کی پیداوار پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے طریقے جن سے غذائی اشیاء پیدا کرنے والوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات ختم کرنے میں مدد ملے گی، کاشتکاروں کو بدلتے ہوئے موسم اور بتدریج گرم آب و ہوا کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دیں گے۔
خشک سالی، سیلاب، طوفان اور موسم میں اچانک تبدیلیاں، کہا جاتا ہے کہ یہ سب آب و ہوا کی تبدیلی کا تحفہ ہیں۔ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ ان واقعات سے نہ صرف لوگوں کی روز مرہ زندگی متاثر ہوتی ہے، بلکہ زراعت پر بھی برا اثر پڑتا ہے جس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے ۔
2012ء میں امریکہ کی وسط مغربی ریاستوں میں سخت گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے غذائی پیداوار کم ہو گئی۔ امریکہ کے مشرقی ساحل پر ہریکین سینڈی نے تباہی مچائی۔ 2011ء میں، صومالیہ میں خشک سالی سے لوگ مصائب کا شکار ہوئے۔ 2011ء میں روس میں گندم کے کاشتکاروں کو انتہائی شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ۔
صرف یہی نہیں، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے حالات میں اضافہ ہو جائے گا۔
ڈینیئل نیرنبرگ تحقیقی گروپ فوڈ ٹینک کے بانیوں اور انوویشنز اِن سسٹین ایبل ایگریکلچر نامی رپورٹ لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کل بہت سے طریقوں سے زراعت آب و ہوا کی تبدیلی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چونکہ صنعتی پیمانے پر کی جانے والی زراعت میں بہت زیادہ وسائل، زمین سے نکلنے والا ایندھن جیسے گیس، تیل اور کوئلہ، استعمال ہوتا ہے، اس لیے زراعت آب و ہوا میں تبدیلی کا بہت بڑا محرک بن جاتی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے 25 سے 30 فیصد بخارات ، زرعی شعبے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ غذا کی تیاری میں استعمال ہونے والے تمام اجزا کو دیکھیں ، جیسے کیمیائی کھاد، کرم کش ادویات، اینٹی بایوٹک کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن، غذا کی پراسسنگ، تو پتہ چلے گا کہ ان تمام چیزوں کا انحصار زمین سے نکلنے والے ایندھن پر ہے۔‘‘
خاص طور سے مویشی ماحول پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔ نیرنبرگ کہتی ہیں کہ چونکہ دنیا بھر میں، اور خاص طور سے برازیل، چین اور بھارت میں گوشت کا خرچ بڑھ رہا ہے، اس لیے ترقی پذیر ملکوں میں صنعتی پیمانے پر جانوروں کے فارم قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان تمام فارموں یا فیکٹریوں میں ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ ان کی پیداوار کی ترسیل کے لیے ٹرانسپورٹیشن استعمال ہوتی ہے۔ غرض ان تمام چیزوں سے آب و ہوا کی تبدیلی میں اضافہ ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی طریقوں میں رد و بدل کے ذریعے ، ماحول پر پڑنے والے مضر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضرورتیں بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
اس میں زمین اور پانی کے استعمال کے چھ طریقے بتائے گئے ہیں۔ ان طریقوں میں ایگروفارسٹری یا زیرِ کاشت زمینوں پر درخت لگانا شامل ہے تا کہ زمین کے کٹاؤ کو کم کیا جائے، ہوا سے کاربن ڈائی آکسائڈ کو دور کیا جائے اور مٹی کو صحت مند رکھا جائے۔ درختوں سے مویشیوں کو سایہ بھی ملے گا اور جنگلی حیات کو رہنے کی جگہ میسر ہوگی۔
رپورٹ کی ایک اور سفارش یہ ہے کہ شہری علاقوں میں فصلیں اگائی جائیں۔ نیرنبرگ کہتی ہیں کہ ’’شہروں میں غذائی اشیاء اگانے سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچ کم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح، شہروں میں رہنے والے چھتوں پر یا گھروں کے صحن میں پیدا کی ہوئی اشیاء خرید سکتے ہیں۔ اس طرح ٹرانسپورٹیشن کا خرچ کم ہو جائے گا۔ آپ اپنے شہر کو زیادہ سرسبز بنائیں گے اور کاربن کو پھیلنے سے روکیں گے۔ اس طرح آپ کا شہر محض کنکریٹ کی عمارتوں پر مشتمل نہیں ہو گا بلکہ یہ ایسی جگہ ہوگی جس سے غذا کی پیداوار میں مدد ملے گی۔‘‘
پانی کو محفوظ کرنے کے نئے طریقے بھی دریافت کیے گئے ہیں۔ ان میں شہروں میں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا، آبپاشی کے نئے طریقے استعمال کرنا، اور بارشی پانی کو جمع کرنا اور اسے محفوظ کرنا شامل ہے۔ نیرنبرگ کہتی ہیں کہ ملک کی اپنی فصلوں اور مویشیوں کو استعمال کرنا بہتر ہوتا ہے کیوں کہ ان میں اس علاقے کی مخصوص آب و ہوا کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ فصلیں بہت زیادہ درجۂ حرارت میں پھل پھول سکتی ہیں اور یہ درجہ ٔ حرارت بڑھنے کی صورت میں بیماریوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔
نیرنبرگ کے مطابق اگلے پچاس برسوں کے دوران ، افریقی کاشتکاروں میں ماحول سے 50 ارب ٹن کاربن اکٹھا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ رپورٹ میں دی ہوئی تمام سفارشات پر عمل کرنا ممکن ہے، ان پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فنڈز اور عطیات دینے والے ملک اور ترقیاتی ایجنسیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں، عام طور سے ان چیزوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتیں جن پر پہلے سے عمل ہو رہا ہے۔ اکثر بعض نئی قسم کی ٹکنالوجی کے لیے فنڈز حاصل کرنا آسان ہوتا ہے بجائے اس کے کہ ان چیزوں میں پیسہ لگایا جائے جن پر کئی عشروں سے بلکہ صدیوں سے کامیابی سے عمل ہوتا رہا ہے۔
ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے زرعی شعبے اور دنیا میں غذائی اشیاء کی پیداوار پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے طریقے جن سے غذائی اشیاء پیدا کرنے والوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات ختم کرنے میں مدد ملے گی، کاشتکاروں کو بدلتے ہوئے موسم اور بتدریج گرم آب و ہوا کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دیں گے۔