|
ویب ڈیسک -- امریکہ میں مصنوعی ذہانت سے اڑنے والے ایف سولہ اور ایک پائلٹ کی جانب سے اڑائے جانے والے ایف سولہ طیاروں میں تجرباتی مقابلہ کیا گیا۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایف سولہ طیارے میں امریکی ایئر فورس کے سربراہ سیکریٹری فرینک کینڈل نے سفر کیا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ملٹری ایوی ایشن میں نوے کی دہائی میں سٹیلتھ نظام کے بعد اے آئی سب سے بڑی پیش رفت ہے۔ سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ساتھ طیارے ریڈار میں نظر آئے بغیر پرواز کر سکتے ہیں۔
اگرچہ مصنوعی ذہانت سے اڑنے والے جنگی طیاروں کی ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن امریکی ایئر فورس ایک ہزار طیاروں کا فلیٹ تیار کرنا چاہتی ہے جو مصنوعی ذہانت سے چلتے ہوں۔ اس سلسلے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پہلا جہاز 2028 تک آپریشن شروع کر دے گا۔
دونوں طیاروں کے درمیان یہ مقابلہ امریکہ کی ایڈورڈ ایئر فورس بیس میں منعقد ہوا۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایف سولہ میں کینڈل نے سفر کیا جس نے 800 میل کی رفتار سے اڑتے ہوئے ہوا میں کرتب دکھائے، جب کہ اس کے ساتھ ہی پائلٹ والے جہاز نے بھی اس سے مقابلہ کیا اور دونوں نے ہوائی کرتبوں میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی۔
فرینک کینڈل کا کہنا تھا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں ابھی مزید پیش رفت باقی ہے۔ لیکن انہیں یقین ہے کہ اسے جنگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے خود مختار ہتھیاروں کے خلاف عالمی طور پر مخالفت بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ زندگی اور موت کے فیصلوں پر سافٹ ویئر کا اختیار تشویش ناک ہے۔ ادارے کے مطابق اس سلسلے میں عالمی طور پر سیاسی ردِعمل کی ضرورت ہے۔
کینڈل کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ہتھیاروں پر انسانی نگرانی ہو گی جب کہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چھوٹے اور سستے جہاز ہی مستقبل ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایف سولہ، جسے 'وزٹا' کا نام دیا گیا ہے کے کنٹرولر کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں ایسا ایک بھی جہاز ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ اس سلسلے میں اسے جہاں کمپیوٹر سیمولیشن سے تربیت دی جاتی ہے، وہیں ان کرتبوں کا اصل فلائٹ میں تجربہ کر کے بھی سافٹ ویئر کو تربیت دی جاتی ہے۔
چین کے پاس بھی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ہے لیکن ابھی تک اس بات کے اشارے موجود نہیں ہیں کہ اس نے اسے کمپیوٹر کے علاوہ کہیں استعمال کیا ہو۔
وزٹا نے گزشتہ برس ستمبر میں اپنی پہلی تجرباتی فلائٹ اڑائی تھی۔ اس کے بعد ابھی تک دو درجن ہی ایسی تجرباتی فلائٹس آپریٹ کی گئی ہیں۔
اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔