شام میں تعینات امریکی سفیر نے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کا مرکز سمجھے جانے والے ملک کے جنوبی علاقے کا اچانک دورہ کیا ہے ۔
دمشق کے امریکی سفارت خانے کے حکام نے کہا ہے کہ سفیر رابرٹ فورڈ نے منگل کو جنوبی صوبے دارعا کے قصبہ جاسم کا دورہ کیا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ مسٹر فورڈ اور شام میں فرانس کے سفیر ایرک شیوالیر نے احتجاجی مظاہروں اور جوابی حکومت کاروائی کا نشانہ بننے والے شام کے مرکزی شہر حمص کا اچانک دورہ کیاتھا جس پر شامی حکومت برانگیختہ ہوگئی تھی۔ بعد ازاں حکومت نے دونوں سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے کہا ہے کہ سفیر فورڈ نے منگل کا دورہ شامی حکومت کی پیشگی اجازت سے کیا۔
اس سے قبل منگل کو اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے ایک قراداد منظور کی تھی جس میں شامی سیکیورٹی فورسز کے انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوںمیں ملوث ہونے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کونسل کی قرارداد سے ایک روز قبل بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور عینی شاہدین نے دعویٰ کیا تھا کہ شامی فورسز نے صدر بشار الاسد کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران مزید آٹھ افراد کو قتل کردیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق پیر کو اقوامِ متحدہ کی ایک امدادی وفد کے دورہ حمص کے موقع پر شہر کے سینکڑوں باشندوں نے مرکزی چوک پر جمع ہوکر مظاہرہ کیا۔ کئی مظاہرین یہ نعرے بلند کر رہے تھے کہ "قذافی جاچکا ہے، اسد! اب تمہاری باری ہے"۔
عینی شاہدین کےبقول حکومت کے حامی فوجی دستوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے چھ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ دو مزید افراد ملک کے دیگر شہروں میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کی جانے والی سرکاری کاروائی میں مارے گئے۔
قبل ازیں اقوامِ متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق نیوی پیلے نے پیر کو کہا تھا کہ شامی حکومت اپنے ہی شہریوں کے خلاف بظاہر "دیکھتے ہی گولی مار دینے" کی پالیسی اختیار کرچکی ہے۔ انسانی حقوق کی کونسل سے اپنے خطاب میں کمشنر نے بتایا کہ شام میں جاری سیاسی بحران کےنتیجے میں اب تک 22 سو سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پیر کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے اس امر کو "تشویش ناک" قرار دیا تھا کہ صدر بشار الاسد نے ملک میں فوجی کاروائی روکنے سے متعلق اپنے الفاظ کا پاس نہیں کیا۔
امریکہ، یورپی یونین اور کئی دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے بشار الاسد کی اقتدار سے بے دخلی کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔ تاہم شامی صدر ملک میں جاری فوجی کاروائی کا دفاع کرتے ہوئے حزبِ مخالف کو مسلح گروہ اور دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں۔ شامی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی تنقید ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔