امریکہ اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت قطر تہران کی جانب سے 6 ارب ڈالرز کے ان ایرانی فنڈز تک رسائی کی کسی درخواست پر فی الحال کوئی اقدام نہیں کرے گا جنہیں گزشتہ ماہ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں غیر منجمد کیا گیا تھا۔ یہ بات ایک امریکی عہدے دار نے جمعرات کے روز بتائی ہے۔
یہ اقدام اسرائیل پر حماس کے مہلک حملوں کے بعد اور ری پبلکنز کی جانب سے ایران کے ساتھ بائیڈ ن انتظامیہ پر جاری اس تنقید کے بعد کیا گیا ہے جس کے تحت پانچ زیر حراست امریکیوں کی رہائی کے بدلے اس کے 6 ارب ڈالرز کے اجرا پر پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
SEE ALSO: امریکہ اور ایران کے قیدیوں کا تبادلہ مکمل، پانچ امریکی رہاعہدے دار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کی کیوں کہ اسے امریکہ اور قطر کے درمیان معاہدے کے بارے میں کسی تبصرے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ امریکی عہدے داروں نے اس تنقید کا سختی سے جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ رقم اب بھی ایران ہی خرچ کرے گا اور اسے صرف انسانی ہمدردی کی ضروریات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
جمعرات کے روز اسرائیل میں نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران جب امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے ان فنڈز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت جو فنڈز قطر منتقل ہوئے ہیں اس میں سے کوئی بھی رقم در حقیقت ایران نے نہ تو خرچ کیہے اور نہ ہی ان تک اس کی کوئی رسائی ہے۔
در حقیقت اس اکاؤنٹ سے فنڈ ز کی نگرانی امریکی محکمہ خزانہ کرتا ہے اور وہ صرف انسانی ہمدردی کے سامان، خوراک، ادویات اورمیڈیکل آلات کے لیے جاری کیے جاسکتے ہیں اور وہ کبھی بھی ایران کے ہاتھوں میں نہیں جا سکتے ۔
SEE ALSO: تہران اسرئیل پر حماس کے حملے میں ملوث نہیں تھا: آیت اللہ خامنہ ایوائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اسے ابھی ی پتہ چلانا ہے آیا کہ ایران حماس کی اس کثیر جہتی کارروائی میں براہ راست ملوث تھا جو کئی عشروں میں اسرائیل پر اس کا سب سے بڑا حملہ تھا۔
اگرچہ ایران حماس کی مالی اور فوجی شعبوں میں مددکرنے والا ایک اہم ملک ہے تاہم امریکی عہدے دارو ں نے کہا ہے کہ ان کی انٹیلی جنس سےیہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایران کا اس کی کارروائی میں کوئی براہ راست عمل دخل تھا اور انہوں نے ایران پر کوئی الزام عائد نہیں کیا ہے ۔
اسرائیل سےامریکیوں کے انخلا کے لیے پروازوں کا آغاز
اب جب اسرائیل حماس عسکریت پسندوں کے حملوں کے خلاف انتقامی کارروائی میں اضافے کی تیاری کررہاہے ، وائٹ ہاؤس جمعے کوان امریکیوں کے انخلا کے لیے پروازیں شروع کررہا ہے جو اسرائیل سے رخصت ہونا چاہتےہیں ۔
ایک امریکی عہدے دار نے تصدیق کی کہ اسرائیل کے لیے حمایت کے ایک دانستہ اظہار میں امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن بھی امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے جمعرات کے دورے کے بعد جمعے کو اسرائیل کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی عہدے دارنے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آسٹن متوقع طور پر وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے ساتھ ملاقات کریں گے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ حماس کے ساتھ جنگ میں کتنی اضافی فوجی امداد کی ضرورت ہے ۔
جمعرات کو برسلز میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے آسٹن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو اس کے دفاع کے لیے اسلحہ ، اور ہمارے آئرن ڈوم انٹر سیپٹرز سمیت جو کچھ بھی درکار ہے اسے فوری طور پر اسے پہنچانے پر کام کر رہا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ امریکہ علاقائی ملکوں پر مسلسل زور دیتا رہے گا کہ وہ غزہ جانے اور وہاں سے باہر آنے کا کوئی محفوظ راستہ دیں جس سے ناکہ بند علاقے میں پھنسے سینکڑوں امریکیوں کی مدد ہو سکے ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)