|
امریکہ نے جمعے کو روس کی تیل اور گیس سے آمدنی کو نشانہ بناتے ہوئے یوکرین جنگ کے دوران اب تک کی سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد یوکرین اور آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روس کے ساتھ یوکرین جنگ کے خاتمے کی جانب ممکنہ امن معاہدے کے مذاکرات میں فائدہ دینا ہے۔
ماہرین کے مطابق نئی پابندیوں کا مقصد روس کی اس آمدنی کے ذرائع کو سکیٹرنا ہے جس سے وہ یوکرین میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہے ۔
فروری 2022 میں روسی حملے سے شروع ہونے والی اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں جبکہ شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ جمعہ کو اعلان کردہ اقدامات ماسکو کو "ایک اہم دھچکا" پہنچائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا، "روس تیل سے جتنی کم آمدنی حاصل کرے گا، اتنی ہی جلد امن بحال ہو جائے گا۔"
SEE ALSO: امریکہ میں نیٹو اجلاس؛ یوکرین کو مزید پانچ ایئر ڈیفنس سسٹم فراہم کرنے کا اعلانوائٹ ہاؤس کے اقتصادی اور قومی سلامتی کے امور کے ایک اعلیٰ مشیر دلیپ سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدامات "روس کے توانائی کے شعبے پر اب تک کی سب سے اہم پابندیاں ہیں جو کہ صدر ولادیمیر پوٹن کی جنگ کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔"
امریکہ کے محکمہ خزانہ نے جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں ان میں Gazprom Neft SIBN.MM اور Surgutneftegas شامل ہیں جو تیل کی تلاش، پیداوار اور فروخت کا کام کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ روسی تیل کو سمندری راستوں سے برآمد کرنے میں استعمال ہونے ولے 183 بحری جہازوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
ان میں سے بہت سے جہاز اس بیڑے میں شامل ہیں جسے "شیڈو فلیٹ" کہا جاتا ہے۔ ان میں شامل عمر رسیدہ ٹینکروں کو غیر مغربی کمپنیاں چلاتی ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ: ایوانِ نمائندگان سے اسرائیل، یوکرین اور تائیوان کے لیے 95 ارب ڈالرز کا امدادی پیکج منظوران پابندیوں کا اطلاق ان نیٹ ورکس پر بھی ہو گا جو پیٹرولیم کی تجارت کرتے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق ان میں سے بہت سے ٹینکرز بھارت اور چین کو تیل بھیجنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سال 2022 میں گروپ آف سیون ممالک کی طرف سے مقرر کی گئی قیمت کی حد نے روسی تیل کی تجارت کو یورپ سے ایشیا میں منتقل کر دیا ہے۔
ان میں کچھ ٹینکرز ایسے بھی ہیں جنہیں روسی اور ایرانی تیل بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: روس کو بیلسٹک میزائلوں کی فراہمی، امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاںامریکی محکمہ خزانہ نے اس شق کو بھی منسوخ کر دیا جس کے تحت روسی بینکوں پر پابندیوں کے باعث توانائی کی ادائیگیوں کے عمل میں درمیانی کردار ادا کرنے والوں کو استثنیٰ دیا گیا تھا۔
ایک امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر ان پابندیوں کا اچھی طرح اطلاق ہوتا ہے تو روس کو ہر ماہ اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اہلکار کے مطابق تیل کی پیداوار اور تقسیم کے سلسلے میں کوئی ایسا کام نہیں جن پر ان پابندیوں کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔ لہذا امریکہ کو یقین ہے کہ روس کی ان پابندیوں سے بچنے کی کوشش اسے بہت مہنگی پڑے گی۔
روس کی گیس پرام کمپنی نے امریکی اقدام کے ردعمل میں کہا کہ یہ پابندیاں غیر منصفانہ اور ناجائز ہیں اور وہ اپنا کام انجام دیتی رہے گی۔
تیل کی سپلائی اب امریکہ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں
پابندیوں کے نئے امریکی اقدامات سے متاثر ہونے والی کمپنیوں کو توانائی کے لین دین کو مکمل کرنے کے لیے 12 مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے۔
اس چھوٹ کے باوجود روس کے تیل کی تجارت اور بھارت کے تیل صاف کرنے کے کام سے وابستہ ذرائع نے کہا ہے کہ پابندیاں بڑے خریداروں بھارت اور چین کو روسی تیل کی برآمدات میں شدید رکاوٹ ڈالیں گی۔
روس پر تازہ ترین پابندیوں کے اعلان سے پہلے تیل کی عالمی قیمتوں میں تین فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ برینٹ خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ گئی کیونکہ ایک دستاویز کے ذریعہ ان پابندیوں کی تفصیلات یورپ اور ایشیا کے تاجروں کو پہلیے ہی پہنچائی گئ تھیں۔
محکمہ خارجہ میں توانائی کے وسائل کے لیے امریکی نائب سیکریٹری جیفری پوئیٹ نے کہا کہ اس سال امریکہ، گیانا، کینیڈا اور برازیل سے تیل کی نئی سپلائی مارکیٹ میں آنے کی توقع ہے۔
SEE ALSO: امریکہ اور یورپی ملکوں کا روس کے جوہری ایندھن پر انحصار کیسے کم ہوگا؟ان کے مطابق ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ سے بھی مزید تیل آئے گا اور یوں روس کی طرف سے سپلائی کی کمی کو پورا کیا جاسکے گا۔
واشنگٹن کی یہ پابندیاں یوکرین جنگ کے تناظر میں ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہیں۔
جو بائیڈن حکومت نے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے کیف کو 64 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔
امریکی امداد میں اس ہفتےدیے گئے فضائی دفاعی میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کے لیے معاون آلات کے لیے 500 ملین ڈالر بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل نومبر میں امریکہ نے روس کے عالمی تجارت کے سب سے بڑے گیس پرام بینک سمیت مالی اداروں اور روسی تیل کی تجارت میں شامل درجنوں آئل ٹینکڑوں پر بھی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
مستقبل میں ان پابندیوں کا خاتمہ کانگریس کے ذریعہ ممکن ہوگا
بائیڈن حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اس بات کا انحصار "مکمل طور پر" نو منتخب ری پبلیکن صدر ٹرمپ پر ہے کہ وہ ڈیموکریٹک بائیڈن کے دور میں عائد پابندیاں کب اور کن شرائط پر اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن، عہدیدار کے مطابق، ٹرمپ کو ایسا کرنے کے لیے کانگریس کو مطلع کرنا ہوگا اور اس سے منظوری لینا ہوگی۔
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے قانونی فرم "Hughes Hubbard & Reed" کے ایک پارٹنر جیریمی پینر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ کے لوگ آئیں گے اور خاموشی سے وہ بائیڈن کے سب اقدام الٹا دیں گے۔
SEE ALSO: یوکرین جنگ کے خاتمے پر ٹرمپ سے مذاکرات اور مفاہمت کے لیے تیار ہیں: پوٹنوہ کہتے ہیں،" کانگریس کو اس میں شامل ہونا پڑے گا۔"
رائٹرز کے مطابق ٹرمپ کی واپسی نے روس کی یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سفارتی حل ڈھونڈنے کی امید کو جنم دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ یوکرین کو فوری امن کے قیام کے لیے ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
منتخب صدر کی ٹرانزیشن ٹیم نے رائٹرز کی طرف سے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا خبر بنانے تک کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)