اب جب کہ یوکرین پر روس کے حملے کو چھ ماہ ہو چکے ہیں، بدھ کو وائٹ ہاؤس نے یوکرین کے لیے اب تک کے اپنے سب سے بڑے 3 ارب ڈالر کےسیکیورٹی امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے ۔ تین ارب ڈالر کے اس وعدےکے بعد اس 184 روزہ تنازعے میں امریکہ کی کل امداد 13.6 ارب ڈالر ہو جائے گی۔
پچھلے امدادی پیکجوں کے برعکس جو فوری فوجی ضروریات پوری کرتے تھے، یہ نیا پیکج درمیانی اور طویل المیعاد فوجی امداد پر مرکوز ہےجسے یوکرین پہنچنے میں مہینوں یا برسوں تک لگ سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین جین پیئر نے کہا کہ "یہ یوکرین کے لیے ایک طویل المیعاد وعدہ ہے تاکہ وہ اپنی آزادی کے لیے لڑائی جاری رکھیں اور بہادری کے ساتھ، جیسا کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے جمعرات کے روز بات کریں گے ۔ جب نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اسٹرٹیجک کمیو نی کیشنز کے رابطہ کار جان کربی سے پوچھا گیا کہ آیا بائیڈن زیلنسکی سےملاقات کے لیے کیف کا دورہ کر سکتے ہیں اور اگر ایسا ہے یہ دورہ کب ہو سکتا ہے ، تو انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس وقت ایسے کسی دورے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔
جان کربی نے بدھ کو کہا کہ بائیڈن اس بارے میں واضح رہے ہیں کہ ہم روس کو جواب دہ ٹھہراتے رہیں گے اور یوکرین کو جب تک مدد کی ضرورت ہوگی کرتے رہیں گے ۔
SEE ALSO: امریکہ کا یوکرین کو ایک ارب ڈالر کا مزید اسلحہ دینے کا اعلانپینٹاگان نے زور دے کر کہا کہ یہ نیا بڑا وعدہ اس سخت تنازعےکے لیے پہلے سے کسی نتیجے کا اندازہ نہیں لگاتا جو تیکنیکی اعتبار سے 2014 میں روس کی جانب سے کرائمیا کے الحاق سے شروع ہوا تھا۔
بدھ کے روز پالیسی کے امور کے لیے انڈر سیکریٹری آف ڈیفنس کولن کال نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس قسم کا پیکیچ یوکرین میں تنازعے کے کسی خاص نتیجے کا اندازہ نہیں لگاتا ۔" اس لیے مثال کے طور پر اگر جنگ برسوں جاری رہتی ہے ، تو یہ پیکیج متعلقہ ہے اگر جنگ بندی ہو یا امن معاہدہ ہو تو یہ پیکج تب بھی متعلقہ ہے کیونکہ یوکرین کو اپنے دفاع اور مستقبل میں ہونے والی جارحیت کو روکنے کی صلاحیت کی ضرورت ہے۔"
ایسے آثار دکھائی دیتےہیں کہ یوکرین کی فنڈنگ کے لیے یورپی دلچسپی ختم ہو گئی ہے ، جب کہ یورپی خارجہ پالیسی کے سر براہ جوزف بوریل نے جولائی میں براعظم کو اس کے خلاف خبردار کیا تھا جسے انہوں نے "جمہوری تھکاوٹ" کہا تھا جس کا روس استحصال کرنے کی کوشش کرے گا۔
لیکن امریکہ میں صورتِ حال ایسی دکھائی نہیں دیتی، جہاں کانگریس کے ذریعے بڑے امدادی پیکج تقریباً آسانی کے ساتھ روانہ ہوئے ہیں، اور جہاں جولائی کے سروے سے ظاہر ہوا کہ 10 میں سے سات امریکیوں نے مسلسل امداد کی حمایت کی۔
SEE ALSO: امریکہ کا یوکرین کے لیے مزید فوجی امداد کا وعدہلیکن اسٹیمسن سینٹر کے کنونشنل ڈیفنس پروگرام کے ایک تحقیقی تجزیہ کار الیاس یوسف کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کا در حقیقت یہ فرض ہے کہ وہ امریکی عوام کو یہ بتائے کہ یہ سرمایہ کاری کیوں اہم ہے۔
زو م کے ذریعے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا "آپ جانتے ہیں، امریکہ واضح طور پر اس مسئلے پر بہت زیادہ وقت اور کوشش صرف کر رہا ہے۔ اور حکومتی عہدیداروں اور عوامی پالیسی کے لیے یہ بہت اہم ہوگا کہ وہ امریکی عوام کو بتائے کہ کیوں یہ سب کچھ صرف یوکرین کے بارے میں ہی نہیں ہے، کیوں یہ ان کے مفادات اور دنیا کے لیے ایک خاص وژن، اور ایک مخصوص عالمی نظام کے لیے بات کرتا ہے۔ جو ان کے بہترین مفادات کا حامل ہے۔"