امریکہ میں حکام نے جمعے کو تصدیق کی کہ ایک سال میں وسیع پیمانے پر متوقع فرق کو پورا کرنے کی انتھک کوشش کے باوجود فوج میں رواں برس بھرتی کے ہدف سے لگ بھگ 15 ہزار اہلکار کم بھرتی ہوئے ہیں جو کہ بھرتی میں 25فی صد کمی ہے۔ امریکہ کی بری فوج واحد سروس تھی جس نے بھرتیوں کا ہدف پورا نہیں کیا۔
بھرتی میں کمی کے بعد اس صورتِ حال کو دیکھ کر غور کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی جنگی قوت کی تنظیم نو کی جانی چاہیے یا اس کے سائز میں کمی کی جانی چاہیے یا پھر مشن کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے نیشنل گارڈ اور ریزرو اہلکاروں میں اضافہ کیا جائے۔
آرمی سیکریٹری کرسٹین ورمتھ نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بیان میں بتایا کہ آل والنٹیر فورس کے آغاز کے بعد سے بھرتی کے لحاظ سے یہ مشکل ترین سال تھا۔ مالی سال 2202 میں بھرتی کے ہدف کا 75 فی صد حاصل کیا جا سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج اپنی تیاری کو برقرار رکھے گی اور تمام قومی سلامتی کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ اگر بھرتی کے چیلنجز برقرار رہتے ہیں، تو فعال فورسز کو بڑھانے کے لیے نیشنل گارڈ اور ریزرو اہلکاروں کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔
انہوں نے فورس کے ڈھانچے کی تنظیمِ نو کی جانب بھی اشارہ کیا۔
حکام نے بتایا کہ جمعے کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران فوج نے تقریباً45 ہزار اہلکاروں کو بھرتی کیا جب کہ رواں برس بری فوج میں اہلکاروں کی بھرتی کا ہدف 60 ہزارتھا۔
SEE ALSO: سال 2021 : امریکی فوج میں خواتین کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہدوسری جانب فضائیہ نے بھرتی کی آخری تاریخ کو بڑھا دیا تاکہ رواں برس 26 ہزار 151 اہلکاروں کو بھرتی کرنے کے ہدف کو پورا کیا جا سکے۔
فضائیہ کی بھرتی سروس کے سربراہ میجر جنرل ایڈورڈ تھامس نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ 2023 کا آغاز 2022 کے مقابلے میں مشکل حالات کی طرف جا رہا ہے۔
اعلیٰ حکام نے رواں برس فوج کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرنے کے لیے کئی پروگرام بھی استعمال کیے۔ حکام کے مطابق نجی صنعت کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
حکام فکر مند ہیں کہ اگر بھرتی میں کمی کے رجحانات جاری رہے تو پینٹاگون کو اپنی فورس کی ضروریات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور ایسے طریقے تلاش کرنے ہوں گے کہ فوج کی ملازمت کو زیادہ پرکشش بنایا جا سکے، جو فوج اور نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کو اپنی طرف راغب کر سکے۔
رواں برس کے آغاز میں فوج کے اعلییٰ حکام کو اس کمی کا احساس ہو چکا تھا۔اسی لیے کئی ماہ قبل اعلان کیا گیا تھا کہ اسے رواں برس فورس کی مجموعی تعداد کے متوقع سائز کو چار لاکھ 76 ہزارسے کم کر کے لگ بھگ چار لاکھ 66 ہزار تک کرنا ہوگا۔
SEE ALSO: پینٹاگون نے فوج میں انتہا پسندی کے انسداد کے لیے نئے قوائد و ضوابط جاری کر دیےوبائی امراض کے دو برس میں تعلیمی اداروں، عوامی تقریبات، میلوں اور نوجوانوں کی دیگر تنظیموں تک بھرتی کرنے والوں کی رسائی بند ہو گئی تھی جہاں انہیں اکثر ممکنہ امیدوار ملتے تھے۔ آن لائن بھرتی میں بھی کچھ زیادہ کامیابی نہیں ہو سکی۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دیگر ملٹی نیشنل اداروں کی طرح میکڈونلڈز جیسی کمپنیاں بھی نوجوانوں کو ٹیوشن فیس کے فوائد اور دیگر پر کشش مراعات کے ساتھ اپنی طرف آمادہ کر رہی ہیں۔
فوج کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ وہ نئے امیدواروں کی اسی کمی سے دوچار ہیں، جس کا سامان ریستوران، ایئر لائنز اور بڑے کاروباری ادارے کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اندازوں کے مطابق صرف 23فی صد نوجوان فوج کی فٹنس، تعلیمی اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، جن میں سے بہت سے طبی مسائل سے لے کر مجرمانہ ریکارڈ اور ٹیٹوز تک کی وجوہات کی بنا پر نااہل قرار دیے گئے ہیں۔
آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل جیمز میک کونول کا کہنا ہے کہ ہم اپنے معیار کو برقرار رکھنے، امریکہ کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے اور مقدار سے زیادہ معیار پر زور دینے کے لیے بد ستور پرعزم ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ: انتہا پسند نظریات رکھنے والے فوجیوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے: رپورٹیہ واضح نہیں ہے کہ بھرتی کی اس کمی میں کرونا وویکسین کا کتنا عمل دخل ہے۔ اب تک فوج نے لازمی ویکسین لینے سے انکار کرنے پر لگ بھگ 17 سو فوجیوں کو فارغ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، حب الوطنی کا وہ جذبہ جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد فوجی خدمات کے بڑھا تھا، رفتہ رفتہ ماند پڑ تا جا رہا ہے۔
دوسری طرف لوگ نجی اداروں کی منافع بخش نوکریوں کی شرائط کو دیکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی تنخواہیں فوج کی تنخواہ سے بہتر ہوں گی۔ ان ملازمتوں میں ان کے زخمی یا ہلاک ہونے کے امکانات بھی کم ہوں گے۔
بھرتی کے چیلنجز پر سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی ایک حالیہ سماعت کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن سین کرسٹن گلیبرانڈ نے خدمات کو چیلنج کیا اور کہا کہ "باہرنکل کر سوچیں، کیریئر کے نئے راستے بنائیں، بہتر تنخواہ اورترغیباتی ڈھانچے پیش کریں اوراس کے لیے فوج سے لے کر سویلین افرادی قوت، سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔‘‘
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔