امریکہ کے محکمہ دفاع نے اس بارے میں خبردار کرتے ہوئے، کہ افواج کی صفوں میں انتہاپسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، پیر کو نئے قوائد و ضوابط جاری کیے، جن میں سروس ممبران کو انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
نئے ضوابط کا اعلان دارالحکومت واشنگٹن میں کیپیٹل ہل پر حملے کے ایک سال بعد کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والےحملے میں کچھ موجودہ اور سابق سروس ممبران نے حصہ لیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد پینٹاگون نے ادارے کی سطح پر پالیسی کا وسیع تر جائزہ لینا شروع کیا تھا۔
پینٹاگون کے مطابق 100 سے کم فوجی ارکان کے بارے میں گزشتہ ایک سال میں انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں واضح طور پر ملوث ہونے کا علم ہوا ہے۔ لیکن ساتھ ہی محکمہ دفاع نے خبردار کیا ہے کہ ملک کے اندر متشدد انتہا پسندی میں حالیہ اضافے کے پیش نظر ان کی تعداد بڑھ سکتی ہے، خاص طور پر سابق فوجیوں کے اندر اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی بڑی حد تک عائد شدہ ممنوعہ چیزوں کو تبدیل نہیں کرتی لیکن یہ اس بات کو واضح کرنے کی ایک کوشش ہے کہ فوج کے سروس ممبران کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔ اور ساتھ ہی یہ پالیسی فوجی سروس ممبرز کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے مطابق آزادی رائے کا حق بھی دیتی ہے۔
اس پالیسی میں پہلی بار سوشل میڈیا کے استعمال کے متعلق خصوصی طور پر واضح ہدایات شامل ہیں۔
نئی پالیسی تفصیل سے بیان کرتی ہے کہ سوشل میڈیا پر کن باتوں کے کرنے پر پابندی ہے جیسا کہ دہشت گردی کی حمایت، حکومت کو الٹنے کی حمایت، کسی انتہا پسند گروپ کی جانب سے فنڈز جمع کرنا یا اس کے حق میں حمایت کا اظہار کرنا اور انتہا پسند نظریات کو پسند کرنا یا ان کو دوبارہ پوسٹ کر کے ان کی تشہیر کرنا۔
کسی سروس ممبر کا احتساب کرنے کے لیے کمانڈرز کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ کیا واقعی سروس ممبر کسی انتہا پسند کارروائی میں ملوث ہے اور یہ کہ کیا اس نے فعال طور پر منع کی گئی کارروائی میں حصہ لیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے کہ وضع کردہ پالیسیوں نے بھی سروس ممبرز کو انتہا پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے منع کیا تھا لیکن ان میں ممانعت کی اس قدر تفصیلات شامل نہیں تھیں جیسا کہ اب نئی پالیسی میں کیا گیا ہے۔ ماضی کی پالیسیوں میں کسی سروس ممبر کے احتساب کے لیے اس کے یقینی طور پر ملوث ہونے یا نہ ہونے کے تعین کے لیے دو سطحوں پر مشتمل طریقہ کار کی وضاحت بھی شامل نہیں تھی۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی فوج عرصے سےسفید فام بالا دستی پر یقین رکھنے والے اور دوسرے انتہا پسندوں کی فورسز میں موجودگی سے آگاہ ہے۔
لیکن پچھلے سال چھ جنوری کو کیپیٹل ہل ہر ہونے والی بغاوت میں کچھ موجودہ اور سابقہ فوجیوں کی موجودگی کے بعد وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور دوسرے عسکری رہنماوں نے انتہا پسندی کے انسداد کے لیے ایک وسیع تر مہم کا آغاز کیا۔
پیر کے روز ایک پیغام میں آسٹن نے کہا کہ وزارت دفاع یقین رکھتی ہے کہ صرف چند سروس ممبران اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہوئے۔
لیکن، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ چند لوگوں کے اعمال یونٹ کی ہم آہنگی، حوصلے اور تیاری پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتے ہیں اور ان سرگرمیوں سے ہونے والے جسمانی نقصان سے لوگوں کی حفاظت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق فوج میں انتہا پسندی اس لیے بھی خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے سروس ممبرز کی حساس فوجی آپریشنز یا دوسرے قومی سلامتی کے متعلق خفیہ معلومات تک رسائی حاصل ہوتی ہے جو کہ دشمنوں کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلحے سے واقفیت اور لڑائی کی مہارت کی وجہ سے موجودہ اور سابقہ فوجیوں کو انتہا پسند گروپ اپنا حصہ بناسکتے ہیں۔
تاہم اس سلسلے میں امریکہ کی بیس لاکھ سے زائد موجودہ اور سابقہ فوجیوں پر مشتمل فوج میں انتہا پسندی کے کیسز کی تعداد بہت کم ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دیا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کے رجحانات کی نشاندہی کرنا مشکل ہے کیونکہ متعلقہ ڈیٹا بدلتا رہتا ہے۔
نئے ضوابط کے علاوہ، امریکی محکمہ دفاع فوج میں بھرتی کیے جانے والے لوگوں کو جانچنے کے طریقہ کار کو بھی بڑھا رہا ہےجس میں ممکنہ طور پر انتہا پسندانہ سرگرمیوں کا خاص طور پر جائزہ لیا جائے گا۔
اس کے علاوہ محکمہ دفاع ملٹری ممبران کی تعلیم اور ٹریننگ کو بھی وسیع کر رہا ہے۔ فوج چھوڑنے والے ارکان کی تعلیم اور ٹریننگ بھی شامل ہیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)