دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا خوف آج بھی موجود ہے اور اس کے تانے بانے کئی براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن امریکی انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدے دار کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں جو القاعدہ کے گڑھ تھے، اس تنظیم کی طاقت بہت کم ہو گئی ہے۔ خاص طور سے گذشتہ مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس کا زور ٹوٹ گیا ہے۔
حال ہی میں امریکی کانگریس میں انٹیلی جنس کی سماعتوں میں اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں جو اسامہ بن لادن کے ذہن کی پیداوار ہے، بات چیت ہوئی۔
سینیٹر سیکسبے کیمبلس نے کہا’’ہم نے بے شمار بریفنگز میں انٹیلی جنس افسروں سے سنا ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
یو ایس نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے اس خیال کی تصدیق کی۔ انھوں نے کہا’’جب تک ہم القاعدہ پر دباؤ جاری رکھیں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی جہادی تحریک کے لیے اس کی مرکزی قیادت کی اہمیت بڑی حد تک محض علامتی ہو گی۔‘‘
دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ڈرونز کا استعمال ہے جنہیں نگرانی اور جاسوسی یا حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صدر براک اوباما نے حال ہی میں ایک آن لائن ویب چیٹ میں پہلی بار ڈرونز کے ذریعے حملوں کا اعتراف کیا۔ انھوں نے کہا’’ظاہر ہے کہ ڈرونز کے بہت سے حملے پاکستان کے قبائلی علاقے، فاٹا میں کیے گئے ہیں۔ یہ حملے القاعدہ کے مشتبہ افراد کے خلاف ہوئے ہیں جو افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں موجود تھے۔ ان تک کسی اور طریقے سے پہنچنے کے لیے شاید ہمیں کہیں زیادہ بڑی فوجی کارروائی کرنی پڑتی۔‘‘
صدر نے یہ بھی کہا کہ ان ہوائی حملوں میں ہلاک و زخمی ہونے والے سویلین باشندوں کی تعداد بہت کم ہے۔’’یہ حملے بڑی حد تک القاعدہ اور اس سے وابستہ لوگوں کے خلاف کیے گئے ہیں اور بالکل نشانے پر لگے ہیں۔ اس طریقے کے استعمال میں ہم نے بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔‘‘
تھامس لینچ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بن لادن کی ہلاکت، افغانستان اور پاکستان میں انٹیلی جنس اور اسپیشل آپریشنز نیٹ ورکس کو مضبوط بنانے اور ڈرونز کے حملوں کی وجہ سے اس علاقے میں القاعدہ کی طاقت بہت کم ہو گئی ہے۔
لینچ کا اندازہ ہے کہ اب صرف تین افراد باقی بچے ہیں جو اس بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کو دوبارہ منظم کرنے کے اہل ہیں۔’’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ لوگ باہر نکلیں گے اور خود کو ڈرون حملوں کے خطرے میں ڈالیں گے۔ ان لوگوں نے سبق سیکھ لیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ لوگ بڑے شہری علاقوں کے آس پاس رہیں گے جہاں انہیں نشانہ بنانے کے لیے ہمیں پاکستانیوں کی حمایت اور مدد کی ضرورت ہو گی۔‘‘
لینچ جو امریکی فوج کے ریٹائرڈ کرنل ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں ڈرون حملوں کو جاری رکھنے سے، فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو گا۔ اگرچہ خیال یہی ہے کہ یہ حملے پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد سے کیے جاتے ہیں، لیکن پاکستان نے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور انہیں اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں تشویش کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔
ٹام پارکر واشنگٹن میں انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی حکومت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ ڈرونز کے حملے اپنے دفاع کے نام پر کیے جا رہے ہیں یا یہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہیں۔’’عالمی سطح پر مسلح تنازع کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ دنیا میں کہیں بھی ایسے لوگوں کو ہلاک کرنے کے حق کا دعویدار ہے جنہیں وہ دہشت گرد سمجھتا ہے۔ اس میں پاکستان ضرور شامل ہے، اور یمن بھی شامل ہے، لیکن اگر اس دلیل کو تسلیم کیا جائے، تو اس میں میکسیکو، پیرس، لائبیریا، جنوبی افریقہ اور گواتیمالا کو بھی شامل کرنا ہوگا، اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی، اس میں امریکہ کی سڑکوں کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ اب یہ خطرناک بات ہوگی۔‘‘
انسانی حقوق کے گروپ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ صدر اوباما یا اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کو القاعدہ کے خلاف امریکہ کی خفیہ کارروائیوں کے دائرۂ کار کے بارے میں زیادہ وضاحت سے بات کرنی چاہیئے ۔