امریکہ نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اب بھی روسی صدر ولادی میر پوٹن کو یوکرین جنگ ختم کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
یہ بیان وائٹ ہاوس میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے ایک سوال کے جواب میں دیا ہے۔ نیوز کانفرنس کے دوران ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے جنگ بند کرانے کی کوششوں میں بہت تاخیر ہو گئی ہے؟
اس پر ردِعمل دیتے ہوئے جان کربی نے کہا کہ جنگ آج بھی بند ہو سکتی ہے اور اسے بند ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق اس جنگ کے لیے صرف پوٹن ذمے دار ہیں اور اب انہیں لڑائی بند کر دینی چاہیے۔ لیکن بجائے اس کے وہ توانائی اور پاور انفرا اسٹرکچر پر کروز میزائل داغ رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق جان کربی کا یہ بیان اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے اپنے امریکی دورے میں یکم فروری کو امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے ملاقات اور باہمی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے 10 فروری کو ماسکو میں پوٹن سے ملاقات اور مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
وزیرِ اعظم مودی لگ بھگ ایک سال قبل جنگ شروع ہونے کے بعد روسی صدر پوٹن اور یوکرینی صدر زیلنسکی سے متعدد بار بات چیت کر چکے ہیں۔
مودی اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ تنازعات کو سفارت کاری اور مذاکراتی عمل سے حل کیا جانا چاہیے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اجیت ڈوول کے امریکہ اور روس کے دورے اور تبادلۂ خیال کے بعد جان کربی کا یہ بیان اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ جنگ بندی کے بارے میں درپردہ سفارت کاری کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق پہلے بھی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے یہ امید تھی کہ وہ اس بارے میں ثالثی کر سکتے ہیں اور یہ امید اب بھی قائم ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معیشت اور ایک طاقت ور ملک کی حیثیت سے اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے ثالثی کر سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مختلف اسباب کی وجہ سے امریکہ اور روس دونوں بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
اُن کے بقول جنوبی ایشیا میں امریکہ اور روس دونوں کے مفادات ہیں۔ چین کے ساتھ اپنے گہرے روابط کے باوجود روس، بھارت کو بھی ایک اچھا شریک کار اور دوست مانتا ہے۔ دونوں میں تاریخی رشتے رہے ہیں۔
ان کے مطابق بھارت ثالثی کی پوزیشن میں تو ہے لیکن کیا روس اور یوکرین اس بارے میں معاونت کر نے کے لیے تیار ہیں۔
ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں نرمی اور لچک پیدا کریں۔ سوال یہ ہے کہ فریقین کی مودی سے بات چیت کے باوجود کیا وہ اپنی پوزیشن سے کچھ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ روس چاہتا ہے کہ خطے میں اس کے خدشات کو دور کیا جائے اور اس سلسلے میں اسے یقین دہانی کرائی جائے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ امریکہ روس کے خدشات کو دور کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ روس کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ نیٹو یوکرین کو اپنا رکن بنا کر روس کی سرحد تک پہنچ جائے گا اور وسطی ایشیا میں جسے روس اپنا بیک یارڈ تصور کرتا ہے، اپنی طاقت میں اضافہ کرکے اس کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ 1990 میں صدر گورباچیف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ایک پوائنٹ یہ بھی تھا کہ نیٹو اس جانب اپنی توسیع نہیں کرے گا۔ لیکن اس معاملے پر ابھی تک کسی بھی جانب سے کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ، یورپ اور مغرب کی جانب سے وزیرِ اعظم مودی کے اس مؤقف کی تائید کی گئی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مذاکرات اور سفارت کاری سے مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے۔ ان طاقتوں کو اس کا بھی احساس ہے کہ بھارت کی ایک عالمی پوزیشن ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اجیت ڈوول کے واشنگٹن اور ماسکو کے دورے میں جنگ بندی اور بھارت کی ثالثی کے امکانات پر ضرور گفتگو ہوئی ہوگی۔
اُن کے بقول یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے او ر عالمی شخصیات کے درمیان ایسے تنازعات پر تبادلۂ خیال کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔
ان کے مطابق اس وقت بھارت کے علاوہ کوئی دوسرا ملک ایسا نظر نہیں آتا جو ثالثی کے لیے بہت مناسب ہو۔ زیلنسکی نے بھی کئی بار وزیر ِاعظم مودی سے کہا ہے کہ وہ روس پر اپنے اثرات کا استعمال کریں اور اس کو جنگ بندی پر آمادہ کریں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ بھی جنگ کے خاتمے کے حق میں ہے۔ لیکن اگر روس کی جانب سے وسیع تباہی کے ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو امریکہ یوکرین کو ایسے ہتھیار دے سکتا ہے جن کے استعمال سے روس کو پریشانی ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر اس جنگ کو نہیں روکا گیا تو اس کے مزید بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔
گزشتہ سال دسمبر میں یوکرین کے صدر زیلنسکی نے مودی سے بذریعہ فون بات کی اور اپنے 10 نکاتی امن فارمولے پر ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس سے قبل ستمبر میں ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقد ہونے والے ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اجلاس کے موقع پر مودی نے پوٹن سے ملاقات کے وقت کہا تھا کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔ ان کے اس بیان کو کافی حمایت حاصل ہوئی تھی لیکن اس بارے میں پوٹن نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی تھی۔