|
امریکہ نے جمعرات کو اسرائیل سے مطالبہ کیاہے کہ وہ غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر حملے کے بارے میں شفافیت اختیار کرے، بشمول اس کے کہ کیا حملےمیں بچے ہلاک ہوئے تھے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے جمعرات کو بریفنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ "اسرائیل کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس حملے کے بارے میں مزید معلومات جاری کرنے جا رہی ہے، جس میں حملے میں ہلاک ہونے والوں کے نام بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: غزہ اسکول پر حملہ شہریوں کی تکالیف کی ایک 'خوفناک مثال' ہے: گوتریسمحکمہ خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کے حوالے سے کہا کہ "ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ ان معلومات کو عام کرنے میں مکمل طور پر شفاف ہوں گے۔"
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے اسکول پر حملہ کیا جس کے بارے میں اس نے فوری طور پر ثبوت پیش کیے بغیر دعویٰ کیا کہ حماس اور اسلامی جہاد اپنی کارروائیوں کے لیے اسے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے ان جائزوں پر یقین رکھتا ہے کہ حماس نے بعض اوقات سویلین انفراسٹرکچرز میں خود کو چھپایا ہوتا ہے، لیکن انہوں نےکہا کہ وہ تازہ ترین حملے کے بارے میں معلومات کا انتظار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا"ہم نے یہ دعویٰ دیکھے ہیں کہ اس حملے میں 14 بچے مارے گئے تھے، اور اگر یہ درست ہے کہ 14 بچے مارے گئے، تو وہ یقینی طور پردہشت گرد نہیں ہیں۔" ۔
اسرائیلی حملے کے بعد دیر البلاح میں واقع الاقصی شہداء اسپتال میں 30 فلسطینیوں کی لاشیں لائی گئی تھیں۔
اسرائیل نے جمعرات کو وسطی غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے استعمال ہونے والے ایک اسکول پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مقامی حکام نے فوری طور پر پانچ بچوں سمیت کم از کم 30 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی تھی۔جو بعد میں 33 اور37 رپورٹ کی گئیں۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ادارے کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اس کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول پناہ گاہوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے جس اسکول کو نشانہ بنایا وہ اقوامِ متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے 'یو این آر ڈبلیو' کے زیرِ انتظام چل رہا تھا اور غزہ جنگ کے متاثرین وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔
SEE ALSO: غزہ: اسرائیلی حملے میں 30 فلسطینی ہلاک؛ اعلیٰ امریکی ایلچی جنگ بندی پر زور کے لیے خطے میں موجودپناہ گزینوں کے اسکول پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ مشیر تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے منصوبے پر پیش رفت کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں۔
یہ رپورٹ اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے۔