افغانستان کے صوبہ ہلمند میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آ گئی ہے جب کہ امریکی فضائیہ نے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری بھی کی ہے۔ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ہونے والی ان جھڑپوں کے بعد سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکی انخلا کے بعد افغان فورسز طالبان کا مقابلہ کر پائیں گی یا نہیں؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے ہلمند میں جاری افغان فورسز اور طالبان کی لڑائی میں امریکہ نے طالبان جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔
تاہم اہل کار نے ان کارروائیوں کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی اس حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ البتہ پینٹاگون کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود کمانڈرز ایسی کسی کارروائی کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں لیکن جس حد تک بھی ہم افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کی معاونت کرسکتے ہیں اسے جاری رکھیں گے۔
تفصیلات کے مطابق ہلمند صوبے میں خاص طور پر لشکر گاہ کے علاقے کے گرد افغان سیکیورٹی فورسز پر طالبان کے حملوں کا دباؤ شدید ہونے کے بعد امریکہ نے طالبان پر فضائی حملے شروع کیے۔
امدادی کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں گزشتہ کئی دنوں سے جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔
SEE ALSO: امریکی فوج کے انخلا کے بعد کا افغانستان کیسا ہوگا؟’ڈاکٹر ود آؤٹ بارڈرز‘ نامی امدادی تنظیم نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ تفصیلات میں بتایا ہے کہ جھڑپوں کے باعث شہری اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں اورجھڑپوں کے دوران ہونے والی فائرنگ سے عام لوگوں کے مکانات بھی متاثر ہورہے ہیں۔
'طالبان کی پیش قدمی روکنے میں مددگار'
بدھ کو خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے مقامی حکام کا کہنا تھا کہ امریکہ کے فضائی حملے طالبان کی پیش قدمی روکنے میں اہم ثابت ہورہے ہیں۔
ایک مقامی افسر عتیق اللہ کا کہنا تھا کہ بمباری انتہائی شدید تھی۔ گزشتہ کئی برسوں میں ایسی شدید بمباری نہیں دیکھی گئی۔
اس کے علاوہ بعض علاقوں میں افغان حکومتی فورسز کو پسپائی کا سامنا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے ملک کے شمالی حصے میں صوبۂ بغلان کے ایک ضلعے پر قبضہ جما لیا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان جنوب مشرقی صوبے پکتیکا میں پولیس چیف کو بھی قتل کرچکے ہیں۔
افغان فورسز مقابلہ کرسکتی ہیں؟
امریکہ کے دفاعی حکام افغان فورسز کی طالبان کے حملوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت پر اب بھی اعتماد رکھتے ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے مقابلے میں افغان سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ عرصے سے وہ قیادت کررہے ہیں۔
افغانستان کی وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امان کہنا ہے کہ اس وقت اے این ایس ڈی ایف (افغان نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس فورسز) سو فی صد آزادانہ طور پر کارروائیوں کی منصوبہ بندی، کمانڈ، کنٹرول اور ان پر عمل درآمد کررہی ہیں۔
ان کے مطابق میدان جنگ میں افغان فورسز کو ان کارروائیوں کے دوران غیر ملکی افواج کی مدد حاصل نہیں۔
تاہم اس حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں کہ افغان فورسز امریکہ کی مدد کے بغیر کب تک طالبان کے حملوں کا مقابلہ کر پائیں گی۔
امریکی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ڈگلس لوٹ نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغان فورسز کے لیے بڑی آزمائش ہوگی۔ افغان فورسز طالبان کے مقابلے میں مغربی اور امریکی فضائی قوت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ کیا افغان اپنی فضائی مدد خود کرسکتے ہیں؟ اور اگر نہیں کرسکتے تو دباؤ میں آنے کی صورت میں کیا امریکہ ان کی مدد کے لیے آئے گا؟
افغان فضائیہ کتنی کارآمد
بعض افغان حکام اپنی فضائیہ کے مؤثر ہونے پر اصرار کرتے ہیں تاہم کچھ امریکی حکام تنبیہ کرچکے ہیں کہ یہ زیادہ دیر حملوں کا سامنا نہیں کرسکے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان فضائیہ مرمت اور دیکھال بھال کے لیے ہزاروں امریکی اور غیر ملکی کانٹریکٹرز کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کانٹریکٹرز بھی ستمبر میں امریکی اور اتحادی فوج کے انخلا کے بعد اپنا کام ختم کر دیں گے۔
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ’اسپیشل انسپکٹر جنرل آف افغانستان ری کنسٹرکشن‘ (سیگار) کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کانٹریکٹرز کی مدد کے بغیر افغان فضایہ جنگ کے لیے چند ماہ سے زیادہ کارآمد نہیں رہے گی۔
امریکہ کے دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ تیکنیکی اور سازو سامان کی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
امریکہ کیا کرسکتا ہے؟
نگرانی اور حملوں کے لیے امریکی جنگی طیاروں اور ڈرونز کے بغیر افغان فورسز کس طرح میدان میں صورت حال کا سامنا کریں گی؟ اس بارے میں کئی تحفظات پائے جاتے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں ’’سرحدوں کے پار‘‘ سے ذرائع کا بندوبست کرنے میں بہت وقت صرف ہوگا اور عام طور پر یہ ’’انتہائی پیچیدہ‘‘ عمل ثابت ہوتا ہے۔
خیال رہے اس وقت قطر کے العدید ہوائی اڈے میں امریکہ کے چھ بی52 بمبار طیارے موجود ہیں۔
اسی طرح خلیج عرب میں طیارہ بردار بحری بیڑہ بی موجود ہے لیکن اسے انخلا کے دوران امریکی فوج کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہاں رکھا گیا ہے۔
حکام کے مطابق خطے کے دیگر ممالک سے ہوائی اڈوں اور افغانستان کے نزدیک دیگر فوجی ساز و سامان رکھنے سے متعلق بات چیت جاری ہے جس میں معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔