کرونا وائرس سے متعلق چین اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والا سفارتی تنازع کھل کر سامنے آگیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے اُس مبینہ دعوے پر تنقید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج میں کرونا وائرس چین نے پھیلایا ہے۔
چین نے بھی امریکہ کے صدر کی طرف سے کرونا وائرس کو 'چینی وائرس' قرار دینے پر صدر ٹرمپ کا نام لیے بغیر تنقید کی ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل کرونا وائرس کو 'چینی وائرس' قرار دیا تھا جب کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو متعدد بار اسے 'ووہان وائرس' قرار دے چکے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا کے 100 سے زائد کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور یہ وائرس سب سے پہلے چین کی شہر ووہان میں سامنے آیا تھا۔
منگل کو صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک نیوز کانفرنس کے دوران اُن کی ٹوئٹ سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ چین مبینہ طور پر ایسی غلط معلومات فراہم کر رہا تھا کہ ہماری فوج نے کرونا وائرس پھیلایا ہے۔
صدر ٹرمپ کے بقول، "چین کی جانب سے پھیلائی جانے والی معلومات غلط ہے جس کے باعث مجھے 'چینی وائرس' کہنا پڑا۔ چونکہ یہ وائرس چین سے ہی آیا ہے اور میرے خیال میں یہ بالکل درست اصطلاح ہے۔"
صدر ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ بعض نقاد اس اصطلاح کے استعمال کو معیوب قرار دے رہے ہیں؟ اس پر امریکہ کے صدر نے کہا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے بلکہ یہ کہنا معیوب ہے کہ امریکہ کی فوج وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔
ادھر چین نے بعض امریکی شخصیات کی طرف سے کرونا وائرس کو مبینہ طور چین کے ساتھ جوڑنے پر سخت برہمی اور اعتراض کیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پہلے اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دیتے ہوئے عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کے لیے ہونے والی بین الاقوامی معاونت میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے منگل کو بیجنگ میں ایک بریفنگ کے دوران صدر ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا کہ ان کا اشارہ ٹرمپ کی ٹوئٹ کی طرف تھا۔
انہوں نے کہا کہ بعض امریکی شخصیات کرونا وائرس کو چین کی ساتھ جوڑ رہی ہیں ایسا کرنا چین کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ امریکہ سے کہیں گے کہ وہ اپنی غلطی درست کرتے ہوئے چین کے خلاف بلاجواز الزامات عائد کرنا بند کر دے۔
اگرچہ صحت کی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کرونا وائرس کو کسی علاقے یا ملک کے ساتھ مخصوص نہ کرنے کی ہدایت کر چکا ہے۔
گینگ شوانگ نے یہ بھی کہا کہ کرونا وائرس دنیا کے متعدد ممالک میں پھیل چکا ہے اس لیے بین الاقوامی برداری کے لیے ٹھوس اور متفقہ کوششیں ضروری ہیں۔
یاد رہے کہ کرونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 2019 کے اواخر میں چین کی شہر ووہان میں ہوئی تھی اور اب تک دنیا بھر میں اس وائرس سے ایک لاکھ 80 ہزار لوگ متاثر اور 7500 سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک اور ترجمان چاؤ لژیان نے ایک ٹوئٹ میں اس سازشی نظریے سے متعلق ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ کرونا وائرس کو اس خطے میں امریکہ کی فوج لے کر آئی تھی۔
چینی ترجمان کی پوسٹ کے ردِ عمل میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے شدید اعتراض کیا تھا۔
پومپیو نے چین کے اعلیٰ سفارت کار یانگ جیچی سے بھی فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وقت غلط معلومات اور بے بنیاد باتیں پھیلانے کا نہیں ہے۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام ممالک مل کر اس مشترکہ خطرے (کرونا وائرس) کا سامنا کریں۔