امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے اپنے چینی ہم منصب سے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین اعلیٰ سطحی تعلقات میں بہتری آنے سے غیرارادی تنازع کا خدشہ کم ہوجائے گا۔
میٹس اور چینی جنرل وائی فنگے کی ملاقات سنگاپور میں منعقدہ ایشیائی سلامتی پر اجلاس کے احاطے سے باہر ہوئی، جس کا مقصد عسکری تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرنا تھا۔ بات چیت کے بعد امریکی اہلکاروں نے بتایا کہ اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ چین کی فوج کے ساتھ تعلقات مستحکم ہونے گلے ہیں، حالانکہ بات چیت کی نتیجے میں کوئی نیا سمجھوتا نہیں ہو پایا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران کڑی نوعیت کی تجارتی لڑائی، روس سے ہتھیار خریدنے پر چین کی فوج کے خلاف امریکی تعزیرات اور جنوبی بحیرہٴ چین میں چین کی جانب سے فوجی چوکیاں قائم کرنے کے معاملے پر امریکہ اور چین کے درمیان فوجی تعلقات میں بگاڑ آیا تھا۔
توقع سے زیادہ طویل ملاقات جو 90 منٹ تک جاری رہی، پینٹاگان کے اہلکار، رینڈل شریور نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ میٹس نے ’’پائیدار تعلقات کی ہماری خواہش کا اعادہ کیا جو مجموعی تعلقات میں استحکام کی باعث ہے‘‘۔
میٹس نے چند ہفتے قبل بیجنگ میں وائی کے ساتھ ملاقات کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔ تاہم، چینی اہلکاروں نے بتایا تھا کہ وائی دستیاب نہیں ہیں، جو کئی لحاظ سے اس بات کا غماز تھا کہ کشیدہ امریکہ چین تعلقات فوجی شعبے تک پھیل چکے ہیں۔ چین نے برہمی کا اُس وقت اظہار کیا جب تعزیرات لگائی گئیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چین کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید مذمت کرتے رہے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں نائب صدر مائیک پومپیو نے چین پر ’’غارت گری‘‘ کی نوعیت کا تجارتی انداز اپنانے اور فوجی ’’جارحیت‘‘ پر اتر آنے کا الزام لگایا۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے اجلاس کے دوران میٹس اور وائی کے درمیان ملاقات پر امریکی ذرائع ابلاغ پر آنے والی اطلاعات کے بارے میں چین کی جانب سے فوری بیان جاری نہیں کیا گیا۔