شام سے فوجوں کے انخلا سے متعلق مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا: جنرل ووٹل

امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ

یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپنے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ شام میں داعش کے گروپ کے خلاف تقریباً اپنی مکمل فتح کا اعلان کر سکتے ہیں۔ لیکن، دفاع سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ شدت پسند اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ امریکیوں کی جانب سے میدان جنگ سے واپسی کے ساتھ ہی وہ پھر سے زور پکڑیں گے۔

دسمبر میں جب ٹرمپ نے اچانک امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا، داعش کے شدت پسندوں نے علاقے پر قبضہ خالی کر دیا۔ تاہم، فوجی اہلکاروں نے انتباہ جاری کیا ہے کہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد چھ ماہ سے ایک سال کے اندر اندر شدت پسند پھر سے اکٹھے ہو جائیں گے۔

محکمہ دفاع کے نگرانی پر مامور ایک ادارے نے پیر کے روز اس امکان کا انتباہ جاری کیا ہے۔
انسپیکٹر جنرل کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش کا گروپ ''میدان جنگ میں مقابلے کا تجربہ رکھتا ہے اور نظم و ضبط کے اصولوں سے بخوبی آشنا ہے، اور انسداد دہشت گردی سے متعلق شام کی کارروائی نہ ہونے کی صورت میں وہ ممکنہ طور پر سر اٹھائے گا۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے اعلیٰ سربراہ، جنرل جوزف ووٹل نے یہ بات منگل کے روز سینیٹ کمیٹی کو بتائی۔
اُنھوں نے بتایا کہ 34000 مربع میل کا علاقہ جو کسی وقت داعش کے زیر قبضہ تھا، اب اُس کے قبضے میں صرف 20 مربع میل کا علاقہ باقی رہ گیا ہے۔

امریکی سینٹرل کمان کے کمانڈر نے سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا کہ ''یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ حالانکہ یہ علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے، داعش اور انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہمارا مشن تبدیل نہیں ہوا''۔

اُنھوں نے کہا کہ ''اتحاد کی جانب سے میدان جنگ میں حاصل کردہ کامیابیاں تب ہی محفوظ رہ سکتی ہیں جب منتشر اور زیادہ تر مات کھانے والی داعش کے خلاف چوکنہ رہ کر کارروائی جاری رکھی جائے، جس کے پاس قیادت، لڑاکے، سہولت کار، ذرائع اور حقارت آمیز نظریہ موجود ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو تیش میں لاتے ہیں''۔

ووٹل نے کہا کہ جنوبی خطے میں عراقی سرحد کے قریب دریائے فرات کی وادی میں اب بھی 1000 سے 1500 داعش کے شدت پسند ایک چھوٹے سے علاقے پر قابض ہیں۔ باقی ماندہ شدت پسند ''منتشر'' ہوکر زیر زمین چلے گئے ہیں، یہ تاثر دیتے ہوئے کہ اُن میں واپس آنے کی سکت باقی ہے۔

ابتدائی طور پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شام کے انخلا کے اُن کے اعلان پر فی الفور عمل درآمد ہوگا۔ لیکن، پھر اس میں تاخیر کی گئی۔ اعلان کے نتیجے میں امریکی اتحادی چونک گئے تھے، جب کہ وزیر دفاع جم میٹس اور داعش کے خلاف اتحاد کے اعلیٰ ایلچی، بریٹ مک گرک مستعفی ہوگئے تھے۔

منگل کے روز ہونے والی سماعت کے دوران ووٹل سے پوچھا گیا آیا شام سے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے اعلان سے قبل اُن سے مشورہ کیا گیا تھا۔ جنرل نے کہا، ''مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا''۔

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرایڈ فون کے لیے:

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:

https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675