وائٹ ہاؤس نے شام میں داعش کو شکست دینے کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے اور وہاں تعینات امریکی افواج واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
داعش کے خلاف فتح کا اعلان پہلے پہل بدھ کی صبح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کیا تھا جو بیشتر قانون سازوں اور امریکہ کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کے لیے خاصا غیر متوقع تھا۔
اس اچانک اعلان کے بعد سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں بحث شروع ہوگئی تھی اور کئی سوالات اٹھائے جا رہے تھے جس کے جواب میں وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کو الگ الگ بیانات جاری کرنا پڑے تھے۔
صدر کے ٹوئٹ پر اپنے وضاحتی بیان میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا ہےکہ داعش کے خلاف مہم دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جس سے قبل امریکہ نے شام سے اپنے فوجی دستے واپس بلانا شروع کردیے ہیں۔
تاہم ترجمان نے یہ وضاحت کی ہے کہ داعش کو شکست دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شام میں اتحادی فوج کی عسکری مہم ختم ہو رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے چند گھنٹوں بعد امریکی محکمۂ دفاع نے بھی ایک وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج نے شام میں داعش کے زیرِ قبضہ علاقے آزاد کرالیے ہیں لیکن شدت پسند تنظیم کے خلاف مہم مکمل نہیں ہوئی ہے۔
لیکن ان وضاحتی بیانات کے بعد بدھ کی شام صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے داعش کے خلاف فتح کا دعویٰ دہراتے ہوئے شام میں تعینات امریکی افواج کی واپسی کا بھی اعلان کردیا۔
اپنے بیان میں صدر نے کہا، "ہم داعش کے خلاف فتح یاب ہوئے ہیں۔ ہم نے انہیں شکست دی ہے اور بہت بری طرح شکست دی ہے۔لہذا اب ہمارے نوجوان، خواتین، ہمارے مرد، وہ سب واپس آ رہے ہیں اور وہ فوراً واپس آ رہے ہیں۔ہم جیت گئے ہیں اور یہی ہم چاہتے تھے اور یہی وہ سب چاہتے تھے۔"
وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون دونوں نے ہی سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر اس بات کی وضاحت سے معذرت کی ہے کہ شام سے تمام امریکی افواج کے محفوظ انخلا میں کتنا وقت لگے گا۔
تاہم پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کے انخلا کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور یہ انخلا منظم انداز میں ہوگا۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے شام میں موجود اپنے تمام عملے کا انخلا پہلے ہی شروع کردیا ہے جب کہ فوجی دستوں کی واپسی 60 سے 100 دن کے اندر مکمل ہوجائے گی۔
وائٹ ہاؤس حکام نے اعتراف کیا ہے کہ داعش کے جنگجو شام کے شمال مشرقی قصبے حجین کے آس پاس جمع ہو رہے ہیں جو شام میں تنظیم کا آخری مضبوط گڑھ رہ گیا ہے۔
لیکن امریکی حکام کے بقول داعش کے اس آخری گڑھ پر قبضے کے لیے کارروائی کامیابی سے جاری ہے اور جنگجووں کی جانب سے کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔
ٹرمپ حکومت کے ایک ذمہ دار نے امریکی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ امریکیوں کو یقین ہے کہ شام میں موجود علاقائی ملیشیائیں امریکی فوج کے تعاون سے داعش کو اس کے آخری مضبوط ٹھکانے سے بھی محروم کرنے میں کامیاب رہیں گی۔
شام میں اس وقت لگ بھگ دو ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں جو امریکہ کی اتحادی 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' اور کرد جنگجووں کو داعش کے خلاف کارروائیوں میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ان ملیشیاؤں کو امریکہ کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
کئی ارکانِ کانگریس اور سابق دفاعی اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے داعش کے خلاف اعلانِ فتح اور امریکی فوج کی اچانک واپسی کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں داعش سے 99 فی صد علاقوں کا قبضہ چھینے جانے کے باوجود اس دعوے کے شواہد موجود نہیں کہ شدت پسند تنظیم کا وجود مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے اور یہ خدشہ موجود ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد جنگجو دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کریں۔