بھارت کے شہر ایودھیہ میں اس ہفتے رام مندر کے افتتاح پر ایک جانب تو خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے جب کہ دوسر ی جانب نکتہ چینی اور تنقید بھی ہو رہی ہے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں مذہبی رواداری کے بارے میں طویل عرصے سے جاری کشیدگی پھر سے بڑھ رہی ہے۔
سولہویں صدی کی منہدم بابری مسجد کی جگہ اس مندر کی تعمیر پر رد عمل ملا جلا ہے۔ ہندو عقیدت مند اس کی تکمیل پر جشن منا رہے ہیں جب کہ مسلمان گروپ اور کچھ بین الاقوامی مبصرین مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح؛ کیا بی جی پی کو انتخابات میں فائدہ ہوگا؟مذہبی آزادی پر امریکہ کے بین الاقوامی کمیشن کے رکن اسٹفن شنیک (Stephen Schnevk) نے اپنے تحریری تبصرے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم ایودھیہ میں منہدم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی حالیہ تعمیر اور افتتاح پر پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کی یہ بھارت میں عبادت گاہوں کی سیکیورٹی کے بارے میں خاص طور سے منی پور میں ہونے والے تشدد کے پس منظر میں ایک پریشان کن مثال کو اجاگر کرتا ہے جن میں سے بہت سی عبادت گاہیں ٹوٹی پھوٹی اور تباہ شدہ ہیں۔
مئی 2023 میں منی پور میں ہونے والے نسلی تشدد میں تقریباّ پونے دو سو لوگ ہلاک ہو گئے تھے اور سینکڑوں عبات گاہیں تباہ ہو گئی تھیں۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم آرگنائیزیشن آف اسلامک کو آپریشن یا او آئی سی نے اس کی مذمت کی ہے جسے اس نے بھارت میں اسلامی آثار مٹانے سے تعبیر کیا۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی مندر ایودھیہ میں رام مندر کے افتتاح سے گیارہ روز قبل روزے سے رہے اور عبادت کی۔ اس شہر کی آبادی 30 لاکھ ہے جس میں کوئی پانچ لاکھ مسلمان ہیں۔
پیر کے روز اپنی تقریر میں مودی نے کہا آج ہمارے بھگوان رام آ گئے۔ صدیوں کے انتظار کے بعد ہمارے رام آ گئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بابری مسجد کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
SEE ALSO: بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر: تنازع کے دوران کب کیا ہوا؟سال 1992 میں مسجد کی تباہی کے سبب پورے بھارت میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں کم از کم دو ہزار جانیں گئی تھیں۔
ہر چند کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندو مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی تھی لیکن ملک کا سیکیولر آئین حکومت کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی مذہبی منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرے۔ تاہم اس کے لیے 36 کروڑ ڈالر نجی عطیات کی صورت میں مل گئے۔
ایک نیا ہندوستان
پیر کے روز مودی نے، جن پر ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے الزامات لگتے ہیں، ملک کے لیے اپنی طویل المدت “ڈیوائن انڈیا” یا مملکت خدا داد ہندوستان کی اصطلاح استعمال کی۔
2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد، حقوق انسانی کے گروپوں اور غیر جانبدار مبصرین نے بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری کے بارے میں خبردار کیا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن نے 2023 میں امریکی حکومت سے کہا تھا کہ بھارت کو بھی افغانستان، شام، نائیجیریا، اور ویت نام کے ساتھ ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جائے، جو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے خاص تشویش کا باعث ہیں۔
امریکی عہدیدار بھارت میں مذہبی عدم رواداری کی صورت حال کو خوفناک کہتے ہیں۔
امریکی کمیشن کے رکن شنیک کہتے ہیں کہ امریکی کمیشن یعنی USCIR بھارت میں مذہبی آزادی کے بارے میں اپنی تشویش کے اظہار کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اور انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قسم کی کارروائیوں سے مذہبی اقلیئتوں کے خلاف موجودہ کشیدگیوں اور تشدد میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
رام مندر کے افتتاح نے نہ صرف مذہبی اہمیت کے لحاظ سے توجہ حاصل کی بلکہ 2024 کے عام انتخابات میں ایک ممکنہ عنصر کے لحاظ سے بھی اس ملک میں اہم ہے جہاں کی ایک اعشاریہ چار ارب آبادی میں 80 فیصد ہندو ہیں۔
بھارت میں کوئی 20 کروڑ مسلمان ، کوئی 28 ملین عیسائی اور 20 ملین سے زیادہ سکھ بھی آباد ہیں۔
امریکہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم “ ہندوز فار ہیومن رائٹس” نے تشویش ظاہر کی ہے کہ مودی کی حکمراں پارٹی ہو سکتا ہے کہ “ہندو ازم” کو سیاسی اور انتخابیُ مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہو۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ مودی کوئی پجاری نہیں ہیں۔ چنانچہ سیاسی مقاصد کے لیے اس تقریب کی قیادت کرنا تیکنیکی اور اخلاقی دونوں طرح سے غلط ہے۔
تاہم ایک سینئر تجزیہ کار اجے کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بی جے پی کو نقصان ہی کہاں ہو رہا تھا جو اس معاملے سے فائدہ پہنچنے کی بات کی جا رہی ہے۔ بی جے پی کو مندر کے نام پر ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اسے اس کے ترقیاتی کاموں پر ووٹ ملتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ مذہبی اور ثقافتی معاملہ ہے اور پھر رام مندر کی تعمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں کو نئی رفتار ملے گی۔ سیاحت اور تجارت کا فروغ ہو گا۔