چین کی معیشت کو آئے دن کڑی خبروں کا سامنا رہتا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں عالمی شہرت رکھنے والے کچھ بڑے برانڈز کا اپنی مینوفیکچرنگ کو دوستانہ ماحول رکھنے والے ممالک میں منتقل کرنے پر غور یا کارروائی کرنا بھی شامل ہے۔
ایسا ہونےکی ایک سادہ سی وجہ کا تعلق چین امریکہ تعلقات کی حساس نوعیت سے ہے اور دوسرے چین کی جانب سے سیکیورٹی کنٹرولز اور تحفظ پسندی بھی ان برانڈز کے لئے چیلنج بنتی ہے۔
ایسے ہی کچھ بڑے عالمی برانڈز میں ایڈیڈاس، ایپل اور سام سنگ شامل ہیں جو اپنے کاروبار کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
تاہم بیجنگ کے لیے 2023 کے بعدامیدکی ایک کرن پھوٹی ہے جس کا تعلق غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہے۔ امریکی فاسٹ فوڈ چینز نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ارب چار کروڑ لوگوں کی منڈی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کے ایف سی چائنا کی پیرنٹ کمپنی نے اس ماہ چین میں اپنا 10ہزار واں ریسٹورینٹ کھولا ہے اور اس کا مقصد 2026 تک چین کی نصف آبادی کے لئے سروسز فراہم کرنا ہے جبکہ میکڈونلڈز اگلے چار برسوں میں چین میں 3,500 نئے ریستوران کھولنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
پھر سٹاربکس نے مشرقی چین میں مینوفیکچرنگ اور ڈسٹری بیوشن کے لئے 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو امریکہ سے باہر اس کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
اب ایک نظر دوسری جانب بھی جہاں چین نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس پر ایک امریکی ریسرچ فرم اور 2 افراد پر پابندی لگا دی۔ چین کے صدر شی جن پنگ شاید ایسا نہیں سوچ رہے تھے جب انہوں نے سان فرانسسکو امریکہ میں عالمی لیڈروں کے سربراہی اجلاس میں چین کی ’سپر لارج مارکیٹ ‘کے بارے میں بات کی تھی۔
ایسے میں فاسٹ فوڈ اور دیگر اشیائے صرف میں سرمایہ کاری جبکہ واشنگٹن چین سے کمپیوٹر چپس اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کی برآمدات کو روک رہا ہے، اپنی معیشت کو جدید بنانے کے لیے چین کے لائحہ عمل سے مطابقت نہیں رکھتی۔
کچھ امریکی کمپنیوں کے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین میں سرمایہ کاری بڑھانے کے باوجود مجموعی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری میں اس سال کمی شروع ہوئی۔
چین کو جولائی سے ستمبر کی سہ ماہی کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 11.8 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا جو 1998 میں بیجنگ کی جانب سے اعداد و شمار جاری کرنے کے بعد پہلا سہ ماہی خسارہ ہے۔جیسے جیسے چین اور اس کے مغربی تجارتی شراکت داروں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کو دوسری جگہوں پر منتقل کر رہی ہیں.
بیجنگ کی جانب سے کچھ الزام امریکی حکومت کی پالیسیوں پر
چین میں وزارت تجارت کے ترجمان شو جوٹنگ نے حال ہی میں کہا کہ ’’امریکہ کی جانب سے بار بار اقتصادی، تجارتی اور ٹیکنالوجی کے مسائل پر سیاست کی گئی ہے اور سیکورٹی کے تصور کو ضرورت سے زیادہ بڑھا دیا گیا ہے۔
یو ایس چائنا بزنس کونسل چین میں امریکی کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کونسل کی جانب سے ستمبر میں جاری ایک سروے سے معلوم ہوا کہ غیر یقینی صورتحال سے نقصان ہوا ہے۔
کونسل کے 43 فیصد اراکین نے کہا کہ چین کا کاروباری ماحول گزشتہ سال میں خراب ہوا ہے جبکہ 83 فیصد چین کے بارے میں تین سال پہلے کے مقابلے میں کم پرامید تھے۔ اکیس فیصد نے کہا کہ وہ چین میں کم وسائل کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں جبکہ صرف 10 فیصد نے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی بات کی۔
SEE ALSO: انڈونیشیا: ٹک ٹاک کا ای کامرس پلیٹ فارم 'ٹوکوپیڈیا' میں بڑی سرمایہ کاری کا فیصلہیورپی اور جاپانی کمپنیوں کے سروے میں بھی ایسے ہی نتائج سامنے آئے
چین کی مارکیٹ بہت بڑی ہے۔ تاہم یہ صحت مند نہیں۔ نوجوان چینیوں میں بے روزگاری کی شرح جون تک 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ مکانوں کی قیمتیں گر رہی ہیں اور سٹاک مارکیٹ گرمیوں کے بعد سے تقریباً 15 فیصد نیچے آئی ہے۔
اس صورتحال نے متعدد چینیوں میں خرچ کے بارے میں گھبراہٹ پیدا کی۔ لیکن کچھ کاروبار اب بھی چین میں منافع حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
میکڈونلڈ کے سی ای او کرس کیمپچنسکی نے کہا، ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ڈھانچے میں آسانی کے لئے اس سے بہتر کوئی اور وقت نہیں ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے اور ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ کی طویل مدتی صلاحیت سے مزید فائدہ اٹھانے کے زبردست مواقع موجود ہیں۔
شکاگو میں قائم میکڈونلڈ کمپنی نے نومبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ چین، مکاؤ اور ہانگ کانگ میں اپنے لائسنس یافتہ سٹورز کی تعداد 20فیصد سے بڑھا کر 48 فیصد کر رہی ہے۔
برگرز اور کافی کے کاروبار زیادہ ہائی ٹیک صنعتوں کی طرح امریکہ اور چین کے پیچیدہ تعلقات میں کوئی اختلاف کی فضا پیدا نہیں کرتے۔ یہ تناؤ صدر بائیڈن کے دورِ صدارت میں برقرار ہے جنہوں نے اپنا منصب سنبھالتے ہوئے، چین کے بڑھتے ہوئے فوجی تسلط اور پڑوسیوں کے لیے اس کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے، ایغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کے ساتھ ملک کے سلوک کو بہتر بنانے، اور املاکِ دانش کی چوری پر سخت کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
SEE ALSO: امریکہ اور چین کے صدور کی ایک برس بعد ملاقات؛ کیا موضوعات زیرِ بحث آ سکتے ہیں؟چین میں امریکی سفیر نکولس برنز نے واشنگٹن میں ایک حالیہ تقریب میں کہا کہ ’’ہم چین کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
نان پرافٹ ریشورنگ انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر روزمیری کوٹس نے توجہ دلائی کہ میکڈونلڈز جیسی کمپنی یا اس کے فاسٹ فوڈ حریفوں کے لیے توسیع یا چھانٹی کے فیصلے نسبتاً آسان ہیں کیونکہ فرنچائزز کو’’کھولا یا بند کیا جا سکتا ہے‘‘ کیونکہ یہ کسی آٹو پلانٹ یا کسی قسم کی مشین شاپ میں سرمایہ کاری کی طرح نہیں ہے۔"
چین کی وسیع مارکیٹ بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کے لیے اہم ہے۔ چین میں سرمایہ کاروں کے سالانہ دن کے اجتماع میں میکڈونلڈ کے منتظمین نے بتایا کہ اس کے کسٹمر لائلٹی پروگرام میں 150 ملین صارفین میں سے 70 ملین چین میں ہیں۔
کے ایف سی چین کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں وہاں بننے والے نئے آؤٹ لیٹس کی شرح اوسطاً 22 فیصد سے زیادہ رہی ہے اور وہ اگلے تین برسوں میں 1,200 اضافی سٹورز کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پو پائیز لیوزیانا کچن نے اگست میں شنگھائی میں ایک فلیگ شپ ریستوران کے ساتھ اپنے برانڈ کو دوبارہ لانچ کیا ہے اور یہ کمپنی اگلے 10 سالوں میں 1,700 اسٹورز کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن چین کی اپنی بڑی منڈی کے تمام وعدوں کے باوجود امریکی کاروباروں کے پاس چین میں توسیع کے بارے میں دو بار سوچنے کی دوسری وجوہات بھی ہیں۔
امریکہ نے جولائی میں امریکیوں سے سفارش کی کہ وہ صوابدیدی قانون کے نفاذ، باہر کے سفر پر پابندی اور غلط حراستوں کے خطرے کی وجہ سے چین کے سفر پر نظر ثانی کریں۔ کامرس وزیر جینا ریمنڈو نے چینی رہنماؤں کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی کاروباری اداروں نے فرموں پر چھاپوں، غیر وضاحتی جرما نوں اور غیر متوقع سرکاری رویوں کی وجہ سے بگڑتے حالات کی شکایات پر توجہ نہیں دی تو وہ ان کے ملک میں سرمایہ کاری کرنا بند کر سکتے ہیں۔
چین نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی خواہش پر زور دینے کے باوجود ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ تجارت، مارکیٹ تک رسائی اور دوسری پالیسیوں کو تبدیل کر سکتا ہے اور یہ صورتحال واشنگٹن اور اس کے دیگر تجارتی شراکت داروں کو پریشان کرتی ہے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے سابق اقتصادی مشیر لیوی کا سوال ہے کہ ایک جانب تو ہمیں حساس نوعیت کے کمپیوٹر چپس کے لئے کسی بھروسے والی جگہ کا انتخاب کرنا ہے اور دوسری جانب ہم انہیں کافی اور برگر کی فروخت کرتے ہوئے اس کا خیال نہیں رکھتے تو آخر کسی نہ کسی ضابطے کا تعین تو کرنا ہو گا۔
(اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے۔)