جنوبی کوریا نے بھی شمالی کوریا کی تازہ دھمکی پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ حملے کا جواب دینے سے ہرگز نہیں ہچکچائے گا۔
واشنگٹن —
امریکہ نے شمالی کوریا کی جانب سے امریکی جزائر گوام اور ہوائی سمیت دیگر علاقوں کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنانے کی تازہ دھمکی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
منگل کو اپنے ایک بیان میں امریکی محکمہ دفاع 'پینٹا گون' کے ترجمان جارج لٹل نے شمالی کوریا کو خبردار کیا کہ وہ "امن کو نقصان پہنچانے کی کوششوں سے باز رہے"۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کی جانب سے اس طرح کے بیانات سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
منگل کو ایک بیان میں شمالی کوریا کی فوجی سپریم کمانڈنے امریکہ اور جنوبی کوریا پر راکٹ حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے لیس فوجی دستوں سمیت فوج کے تمام آرٹلری یونٹس کو "جنگ کے لیے تیار رہنے" کا حکم دیا تھا۔
پیانگ یانگ حکومت کی جانب سے امریکہ اور خطے میں موجود اس کے اتحادیوں کے خلاف فوجی حملے کی دھمکیوں میں حالیہ ہفتوں میں تیزی آئی ہے۔
لیکن بین الاقوامی تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین شمالی کوریا کی ان دھمکیوں کو گیدڑ بھبکیاں قرار دیتے ہیں کیوں کہ عام خیال یہ ہے کہ پیانگ یانگ کے پاس موجود راکٹ اتنے دور مار نہیں کہ وہ امریکی سرزمین کو نشانہ بناسکیں۔
شمالی کوریا کی اس تازہ دھمکی کے بعد اس کے پڑوسی ملک جنوبی کوریا کے حکام نے کہا ہے کہ صورتِ حال پر نظر رکھنے والے دفاعی اہلکاروں کو تاحال شمالی کوریا کی کسی غیر معمولی فوجی سرگرمی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
شمالی کوریا نے واشنگٹن اور سیول کو حملوں کی یہ دھمکی جنوبی کوریا کی صدر پارک گوئنہے کے اس بیان کے فوری بعد دی ہے جس میں انہوں نے پیانگ یانگ سے اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے اور اشتعال انگیز کاروائیوں سے باز رہنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جنوبی کوریا نے بھی شمالی کوریا کی تازہ دھمکی پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ حملے کا جواب دینے سے ہرگز نہیں ہچکچائے گا۔
جنوبی کوریا کی وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق ان کی فوج شمالی کوریا کی کسی بھی جارحیت کا ہر صورت جواب دے گی۔
شمالی کوریا کی اس تازہ دھمکی سے ایک روز قبل ہی جنوبی کوریا اور امریکہ نے فوجی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت پیانگ یانگ کی جانب سے جارحیت کی صورت میں جنوبی کوریا کے دفاع کے لیے امریکی فوجیوں کے کردار کو وسعت دی گئی ہے۔
منگل کو اپنے ایک بیان میں امریکی محکمہ دفاع 'پینٹا گون' کے ترجمان جارج لٹل نے شمالی کوریا کو خبردار کیا کہ وہ "امن کو نقصان پہنچانے کی کوششوں سے باز رہے"۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کی جانب سے اس طرح کے بیانات سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
منگل کو ایک بیان میں شمالی کوریا کی فوجی سپریم کمانڈنے امریکہ اور جنوبی کوریا پر راکٹ حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے لیس فوجی دستوں سمیت فوج کے تمام آرٹلری یونٹس کو "جنگ کے لیے تیار رہنے" کا حکم دیا تھا۔
پیانگ یانگ حکومت کی جانب سے امریکہ اور خطے میں موجود اس کے اتحادیوں کے خلاف فوجی حملے کی دھمکیوں میں حالیہ ہفتوں میں تیزی آئی ہے۔
لیکن بین الاقوامی تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین شمالی کوریا کی ان دھمکیوں کو گیدڑ بھبکیاں قرار دیتے ہیں کیوں کہ عام خیال یہ ہے کہ پیانگ یانگ کے پاس موجود راکٹ اتنے دور مار نہیں کہ وہ امریکی سرزمین کو نشانہ بناسکیں۔
شمالی کوریا کی اس تازہ دھمکی کے بعد اس کے پڑوسی ملک جنوبی کوریا کے حکام نے کہا ہے کہ صورتِ حال پر نظر رکھنے والے دفاعی اہلکاروں کو تاحال شمالی کوریا کی کسی غیر معمولی فوجی سرگرمی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
شمالی کوریا نے واشنگٹن اور سیول کو حملوں کی یہ دھمکی جنوبی کوریا کی صدر پارک گوئنہے کے اس بیان کے فوری بعد دی ہے جس میں انہوں نے پیانگ یانگ سے اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے اور اشتعال انگیز کاروائیوں سے باز رہنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جنوبی کوریا نے بھی شمالی کوریا کی تازہ دھمکی پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ حملے کا جواب دینے سے ہرگز نہیں ہچکچائے گا۔
جنوبی کوریا کی وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق ان کی فوج شمالی کوریا کی کسی بھی جارحیت کا ہر صورت جواب دے گی۔
شمالی کوریا کی اس تازہ دھمکی سے ایک روز قبل ہی جنوبی کوریا اور امریکہ نے فوجی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت پیانگ یانگ کی جانب سے جارحیت کی صورت میں جنوبی کوریا کے دفاع کے لیے امریکی فوجیوں کے کردار کو وسعت دی گئی ہے۔