امریکہ کی بحریہ کے 27 کمانڈروں اور کپتانوں نے چین کے واحد طیارہ بردار بحری جہاز کا دورہ کیا۔ یہ ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان بحیرہ جنوبی چین کے علاقوں سے متعلق دعوؤں پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
بحریہ کے ترجمان لیفٹیننٹ ٹم ہاکنز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ امریکی وفد نے پیر کو ’لیاؤننگ‘ نامی ایک طیارہ بردار جہاز پر ’’خیر سگالی‘‘ کا دورہ کیا۔ اس کے ایک روز بعد انہوں نے چینی بحریہ کی اکیڈمی کا دورہ بھی کیا۔
ہاکنز نے کہا کہ ’’اس دورے کی منصوبہ بندی طویل عرصہ پہلے کی گئی تھی اور اس سے قبل چین کی بحریہ کا ایک وفد بھی امریکہ کا دورہ کر چکا ہے۔‘‘
چین کی ایک فوجی ویب سائٹ نے کہا کہ شرکاء نے عملے کی تربیت، انتظام، طبی امداد اور طیارہ بردار بحری جہاز تیار کرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ چینی بحریہ کے حکام نے فروری میں چین امریکہ نیوی ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ کا دورہ کیا تھا۔
حال ہی میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ امریکی بحریہ ان جزائر جن پر چین کا ملکیتی دعویٰ ہے، کے گرد 21 کلومیٹر علاقے میں ایک جنگی جہاز بھیجنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ امریکہ بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ کے دعوؤں کو تسلیم نہیں کرتا، خصوصاً ان مصنوعی جزائر پر جن کے بارے میں امریکہ کا اصرار ہے کہ انہیں کسی ملک کی ملکیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رواں ماہ چین نے بحیرہ جنوبی چین میں کسی بھی ’’اشتعال انگیز رویے‘‘ کے خلاف تنبیہہ کی تھی، جس کا ہدف بظاہر امریکی محکمہ خارجہ تھا۔ امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے بعد میں کہا کہ ’’جہاں بھی بین الاقوامی قانون اجازت دے گا وہاں امریکہ جہاز اڑائے گا، بحری جہاز بھیجے گا اور نقل و حرکت کرے گا۔‘‘
چین، فلپائن، ویتنام، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی بحیرہ جنوبی چین میں مختلف علاقوں کے دعویدار ہیں مگر اس مصروف اور وسائل سے بھرپور آبی گزرگاہ میں چین کے سب سے زیادہ دعوے ہیں۔
اگرچہ امریکہ کا اس علاقے پر کوئی دعویٰ نہیں مگر اس نے تمام متعلقہ فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ یہاں بحالی کا کام اور فوجی سرگرمیاں معطل کریں۔