چین کے صدر شی جن پنگ نے اس ہفتے امریکہ کا دورہ شروع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعے سے بچا جا سکے جو ان کے بقول تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بات منگل کو سیاٹل میں کاروباری شخصیات سے اپنے پالیسی خطاب کے دوران کہی، جو ان کے دورے کا پہلا پڑاؤ تھا۔ بعد میں وہ وائٹ ہاؤس کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کریں گے۔
’’اگر چین اور امریکہ ایک دوسرے سے بہتر تعاون کریں تو وہ عالمی استحکام کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اگر وہ تنازع یا تصادم کی طرف جائیں تو یہ دونوں ممالک اور باقی دنیا کو تباہی میں ڈال دے گا۔‘‘
سائبر جرائم
چینی رہنما نے ان مسائل کا ذکر بھی کیا جن سے امریکہ اور چین کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں جن میں سائبر جرائم کا مسئلہ شامل ہے۔ صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ صدر شی جن پنگ سے بات چیت کے دوران یہ مسئلہ نمایاں ہو گا۔
شی جن پنگ نے اس مسئلے پر بیجنگ کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ ’’چینی حکومت کسی بھی شکل میں تجارتی چوریوں میں ملوث نہیں ہو گی یا ایسا کرنے میں کسی دوسرے کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ چینی حکومت خود اس کے مسئلے کے متاثرین میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین سائبر جرائم کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’’ایک اعلیٰ سطحی مشترکہ بات چیت کا طریقہ کار‘‘ طے کرنے کے لیے تیار ہے۔ بظاہر ان کا مقصد سائبر حملوں کے خطرے کے بارے میں کاروباری افراد کا اعتماد بحال کرنا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین برآمدات بڑھانے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر کم نہیں کرے گا۔ بہت سے امریکی حکام کا یہ ایک دیرینہ خدشہ رہا ہے اور حال ہی میں بیجنگ کی طرف سے یوآن کی قدر میں کمی کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔
توقع ہے کہ شی اور اوباما چینی رہنما کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران سائبر جاسوسی اور اقتصادی مسائل کے بارے میں بھرپور بھی مذاکرات کریں گے۔
بحیرہ جنوبی چین
چین اور امریکہ میں اختلافات کی دوسرے بڑی وجہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کے متنازع علاقائی دعوے ہیں۔
منگل کو اپنی تقریر میں شی نے اس بات پر زور دیا کہ چین دوسرے ممالک کے ساتھ محاز آرائی نہیں چاہتا اور علاقے میں بحری نقل وحمل کی آزادی میں رکاوٹ نہیں پیدا کرنا چاہتا۔
’’میں یہ دوبارہ کہوں گا کہ چین چاہے کتنی بھی ترقی کرلے وہ کبھی دوسرے ملکوں پر بالادستی اور وسعت نہیں چاہے گا۔‘‘
بحیرہ جنوبی چین میں سپریٹلی جزائر پر بیجنگ زمین کی بحالی کے کام میں مصروف ہے اور شہری اور فوجی تنصیبات کی تعمیر کر رہا ہے۔ سپریٹلی جزائر کے کچھ حصوں پر فلپائن، ویتنام، ملائیشیا، برونائی اور تائیوان کا دعویٰ ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں شی نے روزنامہ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کو بتایا تھا کہ سپریٹلی جزائر قدیم زمانوں سے چین کی ملکیت ہیں۔
امریکہ نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان جزائر پر اپنی سرگرمیاں بند کرے اور انہیں بین الاقوامی اصولوں کے خلاف اور علاقائی میں امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق
چین کے انسانی حقوق کا ریکارڈ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی ایک اور وجہ ہیں۔ امکان ہے کہ شی جن پنگ کے دورے کے دوران یہ مسئلہ بھی اجاگر کیا جائے گا۔
سیاٹل میں چینی رہنما کے خطاب کے دوران باہر درجنوں افراد نے تبت میں بیجنگ کی سخت پالیسیوں اور سیاسی منحرفین کے خلاف کارروائیوں پر مظاہرہ ہے۔
امکان ہے کہ شی کے واشنگٹن کے دورہ کے دوران بھی ان کے خلاف مظاہرے ہوں گے کیونکہ متعدد گروپ وائٹ ہاؤس کے قریب اور نیویارک میں ان کے جنرل اسمبلی کے خطاب کے دوران مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔