امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نےافغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کے سلسلے میں حقانی نیٹ ورک کی مرضی معلوم کرنے کے لیے اس شدت پسند تنظیم کے ساتھ امریکی حکام کے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔
جمعہ کی شب پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو میں اُنھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حقانی نیٹ ورک کے نمائندہ کی امریکی حکام سے ملاقات پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ممکن بنائی تھی۔
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی فوجی قیادت کے اس نکتہ نظر کی بھی حمایت کی کہ خواہ سی آئی اے ہو یا آئی ایس آئی ہر انٹیلی جنس ایجنسی کے عسکریت پسند گروہوں سے رابطے ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان تنظیموں کے ایجنڈے کے راہ نما ہیں۔
’’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آئیں ان رابطوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان لوگوں (حقانیوں) کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وہ تعاون کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ہی تھیں جنھوں نے حقانی کے ایک نمائندے کی امریکی ٹیم کے ساتھ ملاقات کرائی تھی۔‘‘
ہلری کلنٹن پہلی اعلٰی امریکی عہدے دار ہیں جنھوں نے امریکہ اور حقانی نیٹ ورک سے رابطے کا اعتراف کیا ہے اور اُنھوں نے یہ انکشاف ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی انتطامیہ پاکستان سے شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کا بار بار مطالبہ کر رہی ہے۔
وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان کے ساتھ مل کر امن بات چیت کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہتا تھا۔ تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ اگر شدت پسند مذاکرات کے بہانے پروفیسر برہان الدین ربانی کو قتل کرنے جیسے اقدامات کو دہرانا چاہتے ہیں تو امریکہ ایسی بات چیت کا حامی نہیں اور نہ ہی اس مرحلے پر وہ واضح طور پر یہ جانتا ہے کہ طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
کابل میں امریکی سفارت خانے اور دیگر امریکی اہداف پر حقانی نیٹ ورک کے حالیہ حملوں میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے سابق امریکی ایڈمرل مائیک ملن کے بیان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ہلری کلنٹن نے کہا کہ ان الزامات کے بارے میں امریکہ کے پاس ٹھوس ثبوت کی موجودگی کے بارے میں وہ لاعلم ہیں۔