امریکی عدالت نے خاتون قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا

امریکہ کی ریاست انڈیانا میں وفاقی جج نے سزائے موت کی منتظر واحد خاتون قیدی کی سزا پر عمل درآمد روک دیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ لیزا مونٹگمری کی ذہنی صحت کو دیکھتے ہوئے عدالت حکومت کی جانب سے اُنہیں سزائے موت دینے کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہے۔

سال 2004 میں قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والی مجرمہ لیزا مونٹگمری کو 12 جنوری کو مہلک انجیکشن لگا کر موت کی سزا دی جانا تھی۔

لیزا مونٹگمری نے امریکی ریاست میزوری میں ایک حاملہ خاتون کو گلا گھونٹ کر قتل کیا تھا۔

جج جیمز پیٹرک نے سزائے موت پر عمل درآمد روکتے ہوئے اس معاملے میں سماعت کا فیصلہ کیا کہ آیا مجرمہ ذہنی طور پر اس قابل ہیں کہ اُنہیں سزائے موت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔

مونٹگمری کی وکیل کیلی ہینری نے عدالتی حکم کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے سزائے موت پر عمل درآمد روک کر درست فیصلہ کیا۔

ہینری کا کہنا تھا کہ ان کی موکلہ کی ذہنی صحت مسلسل خراب ہو رہی ہے اور ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ اُنہیں سزائے موت دی جائے۔

مونٹگمری کے وکلا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ اُن کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیں۔ اس حوالے سے سات ہزار صفحات پر مشتمل رحم کی پیٹیشن بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھجوائی گئی ہے۔

SEE ALSO: امریکہ: مزید پانچ قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد متوقع

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ مونٹگمری نے یہ انتہائی قدم اس لیے اُٹھایا کیوں کہ اُن کے ساتھ بچپن میں متعدد بار ریپ کیا گیا۔

مونٹگمری کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتی ہیں، لیکن وہ رحم کی مستحق بھی ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے ہی سوتیلے والد اور اُن کے دوستوں کی جانب سے بچپن میں گینگ ریپ کا نشانہ بنیں جس سے اُن کی ذہنی حالت بگڑ گئی ۔

امریکی ادارے 'ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر' کے مطابق 1953 میں آخری مرتبہ بونی ہیڈی نامی خاتون کو ریاست میزوری میں گیس چیمبر کے ذریعے سزائے موت دی گئی تھی۔