’نیشنل سکیورٹی ایجنسی‘ کے سربراہ، مائیک روجرز کے مطابق، امریکہ کو روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی قابلِ ذکر سائبر خطرہ درپیش ہوتا ہے، اور ’’انتہائی شدید خطرات کے ایک سلسلے سے واسطہ پڑتا ہے‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات منگل کے روز امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کی سماعت کے دوران بیان دیتے ہوئے کہی ہے۔ روجرز نے کہا کہ جب معاملہ سائبر حملوں سے نبردآزما ہونے کا ہو، تو امریکہ پیچھے دکھائی دیتا ہے، جب کہ ملک میں کوئی سائبر پالیسی موجود نہیں ہے۔
اُنھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ’’نئی ٹیم اس معاملے پر کام کر رہی ہے‘‘۔
سینیٹر جان مکین نے کہا کہ ماضی میں وہ پالیسی کی عدم موجودگی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے عہدہ سنبھالنے کے 90 دِن کے اندر اندر پالیسی تشکیل دینے کا وعدہ کیا تھا، ’’لیکن، 90 دِن آئے اور گئے‘‘۔
مکین نے کہا کہ ’’افسوس ہے کہ ایسے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہماری قوم تیار نہیں ہے‘‘۔
یہ خیال عام ہے کہ گذشتہ سال ہونے والی ہیکنگ کے پیچھے روس کا ہاتھ تھا، جس کا مقصد امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج پر اثر انداز ہونا تھا۔
’ایف بی آئی‘ اہل کاروں سمیت، دونوں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹیاں انتخاب پر اثر انداز ہونے کی روسی کوششوں کے بارے میں تفتیش کر رہی ہیں۔
ادھر، چین پر بارہا الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کی ہیکنگ میں ملوث ہے، جس میں سنہ 2015 میں ہونے والی کارروائی شامل ہے، جس میں سرکاری اہل کاروں کی دو کروڑ سے زائد فائلیں چوری ہوئی تھیں۔
روجرز نے کمیٹی کو بتایا کہ اُنھوں نے چینی یا روسی سائبر کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں دیکھی۔
روجرز نے کہا کہ ’’عام طور پر، اِس لڑائی میں جارح دفاع کرنے والے پر حاوی آتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایسی حرکت کو بروقت روکنے کا اقدام اہم ہے‘‘۔
روس سے متعلق، روجرز نے کہا کہ امریکہ کو چاہیئے کہ ایسے ’’رویے کو کھلے عام چیلنج کرے’’ اور امریکہ سائبر تحفظات کو ٹھوس بنیادوں پر تشکیل دے، تاکہ آئندہ کوئی ہیکنگ کا نہ سوچے۔ اُنھوں نے کہا امکانی ہیکروں کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسی حرکات کی اُنھیں ’’قیمت ادا کرنی پڑے گی‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہدف یہ ہونا چاہیئے کہ ہم ایسی حرکات میں ملوث ہونے والوں کو بتا دیں کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ آپ کے مفاد میں نہیں ہوگا‘‘۔