ملک کےبڑھتے ہوئے قرض کے معالےپر ہونے والی سیاسی لڑائی کے تصفیے کے لیے امریکی سینیٹ نے منگل کو ایک بل منظور کرلیا جِس کے تحت اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی اور قوم کے قرضے لینے کی حد میں اضافہ ہوجائے گا۔
سینیٹروں نے اِس مفاہمت پر مبنی اقدام کو منظور کرلیا جسے ری پبلیکن راہنماؤں اور صدر براک اوباما نے طے کیا ، ایسے میں جب حکومت کے پاس بلوں کی ادائگی کے لیے رقوم ختم ہوجانے میں صرف 12گھنٹے باقی تھے۔
صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ اِس بِٕل پر دستخط کرکے اِسے قانون کا درجہ دے دیں گے۔
مفاہمتی قانون سازی کے تحت حکومت کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ 2012ء سے آگے تک کے لیے رقوم حاصل کرتی رہے جِس کے عوض آئندہ 10برسوں کے عرصے میں اخراجات میں تقریباً ایک ٹرلین ڈالر کی کٹوتی لائی جائے گی۔
اِس پیکیج کے ذریعے دوجماعتوں پر مشتمل ایک بجٹ کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جِس کی بدولت خسارے میں 1.5ٹرلین ڈالر کی کمی لانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ پینل کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکام رہتا ہے تو اِس کے باعث اخراجات میں تیزی سے کمی لانے کا مقصد حاصل ہوگا۔
ری پبلیکن اکثریتی ایوانِ نمائندگان نے پیر کو بِل منظور کیا تھا۔
سینیٹ کے ووٹ سے قبل، ایوانِ بالا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ہیری ریڈ نے کہا کہ قانون سازی کی مدد سے ایک بحران پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ تاہم، اُنھوں نے بِل پر نکتہ چینی کی، کیونکہ، اُن کے بقول، جو اقدام لیا گیا ہے اُس کی زدمتوسط اور غریب طبقوں پر پڑے گی۔ اُنھوں نے قدامت پسند ری پبلیکنز اور ٹی پارٹی تحریک پر قانون سازوں کو اِس سےپہلے سمجھوتے تک نہ پہنچنے میں آڑے آنے پر تنقید کی۔
ری پبلیکن اقلیتی لیڈر مِچ مک کونیل نے کہا کہ سمجھوتے تک پہنچنا مشکل ہوگیا تھا۔ تاہم، اُن کا کہنا کہنا تھا کہ یہ عوام کی خواہش تھی جِس کی مددسے معاملے کو حل کیا گیا۔ مک کونیل نے کہا کہ وہ بِل میں دیے گئے اخراجات میں کٹوتی کے اقدامات پر مطمئن نہیں ہیں ، لیکن یہ مالی مشکلات کو دور کرنے کے ضمن میں ایک اہم قدم کا درجہ رکھتا ہے۔