روس کے پارلیمانی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ، الیگزی پُشکوف نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے محض اپنی مرضی کی جمع تفریق کی ہے
واشنگٹن —
ایسے میں جب بین الاقوامی حمایت اور نکتہ چینی پر مبنی رد عمل سامنے آ رہا ہے، امریکہ شام کے باغیوں کو مسلح کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کی طرف بڑھ رہا ہے، جِس سے قبل عہدے داروں نے بتایا تھا کہ اِس بات کا ثبوت مل چکا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران حکومتِ شام نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے صدر براک اوباما کے زاوئےنظر کا اعادہ کیا کہ کیمیائی ہتھیار، جِن میں ’نَرو گیس‘ شامل ہے، ’سُرخ لکیر‘ پار کرنے کے مترادف ہے اور جنگ میں امریکہ کے مزید شامل ہونے کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔
دو سال سے جاری اس تنازع کے باعث، شام میں اب تک 90000سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جمعے کے دِن کہا ہے کہ اس بات کے شواہد مل رہے ہیں کہ درحقیقت اموات کی تعداد ‘اِس سے بھی کہیں زیادہ ‘ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق رپورٹ پر یورپ کے امریکی اتحادیوں کا اب تک سامنے آنے والا ردِ عمل حمایت پر مبنی ہے۔
تاہم، شام کی وزارتِ خارجہ نے جمعے کے دِن کہا کہ امریکی الزامات، جس کی بنیاد انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ بتائی جاتی ہے، ’من گھڑت اطلاعات‘ پر مبنی ہے، جِن دعوؤں کو اُس نے ’جھوٹ‘ قرار دیا۔
شام کے اتحادی، روس نے بھی اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔ ماسکو میں حکام نے کہا کہ امریکہ کی فراہم کردہ اطلاعات ’قابل قبول نہیں‘۔
روس کے پارلیمانی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ، الیگزی پُشکوف نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے محض اپنی مرضی کی جمع تفریق کی ہے۔
اُنھوں نے شام کے بارے میں امریکی نتائج کو عراق کے معاملے میں کیے گئے غیر درست دعوے سے مشابہت دی، جب بش انتظامیہ نے غیر ثابت شدہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس عوامی تباہی کے ہتھیار موجود ہیں۔
پُشکوف نے کہا کہ اسد حکومت کے پاس اس بات کا کوئی جائز سبب موجود نہیں کہ وہ باغیوں کے خلاف ’سارین گیس‘ استعمال کرے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ’بیکار باتیں ہیں‘۔
تاہم، برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے جمعے کے دِن کہا کہ برطانیہ شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں امریکی جانچ سے اتفاق کرتا ہے۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے بھی اس بات کا خیرمقدم کیا کہ، اُس کے بقول، یہ ’واضح امریکی بیان‘ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ’یکسر ناقابلِ قبول‘ ہے۔
امریکی انٹیلی جنس حکام مہینوں سے یہ بات کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اُنھیں شک ہے کہ حکومت شام کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ لیکن، مسٹر اوباما نے کہا تھا کہ کسی مزید اقدام کرنے کے فیصلے سے قبل اُنھیں واضح ثبوت درکار ہے۔ اب تک امریکہ باغیوں کو بے ضرر نوعیت کی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔
جمعرات کے روز امریکہ کےنیشنل سکیورٹی کے معاون مشیر، بن رہوڈز نے کہا کہ صدر اوباما نے مخالفین کو براہِ راست فوجی حمایت فراہم کرنے کے اختیار کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی عہدیداروں نے بعدازاں تسلیم کیا کہ اس حمایت میں ہتھیار اور گولہ بارود شامل ہوگا۔
تاہم، وائٹ ہاؤس نے کہا ہےکہ امریکہ اب بھی فوجیوں کو شام روانہ کرنے کا حامی نہیں ہے اور یہ کہ دیگر ’فوجی آپشنز‘ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، مثلاً ’نو فلائی زون‘ کا نفاذ۔
وائٹ ہاؤس نے صدر براک اوباما کے زاوئےنظر کا اعادہ کیا کہ کیمیائی ہتھیار، جِن میں ’نَرو گیس‘ شامل ہے، ’سُرخ لکیر‘ پار کرنے کے مترادف ہے اور جنگ میں امریکہ کے مزید شامل ہونے کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔
دو سال سے جاری اس تنازع کے باعث، شام میں اب تک 90000سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جمعے کے دِن کہا ہے کہ اس بات کے شواہد مل رہے ہیں کہ درحقیقت اموات کی تعداد ‘اِس سے بھی کہیں زیادہ ‘ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق رپورٹ پر یورپ کے امریکی اتحادیوں کا اب تک سامنے آنے والا ردِ عمل حمایت پر مبنی ہے۔
تاہم، شام کی وزارتِ خارجہ نے جمعے کے دِن کہا کہ امریکی الزامات، جس کی بنیاد انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ بتائی جاتی ہے، ’من گھڑت اطلاعات‘ پر مبنی ہے، جِن دعوؤں کو اُس نے ’جھوٹ‘ قرار دیا۔
شام کے اتحادی، روس نے بھی اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔ ماسکو میں حکام نے کہا کہ امریکہ کی فراہم کردہ اطلاعات ’قابل قبول نہیں‘۔
روس کے پارلیمانی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ، الیگزی پُشکوف نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے محض اپنی مرضی کی جمع تفریق کی ہے۔
اُنھوں نے شام کے بارے میں امریکی نتائج کو عراق کے معاملے میں کیے گئے غیر درست دعوے سے مشابہت دی، جب بش انتظامیہ نے غیر ثابت شدہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس عوامی تباہی کے ہتھیار موجود ہیں۔
پُشکوف نے کہا کہ اسد حکومت کے پاس اس بات کا کوئی جائز سبب موجود نہیں کہ وہ باغیوں کے خلاف ’سارین گیس‘ استعمال کرے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ’بیکار باتیں ہیں‘۔
تاہم، برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے جمعے کے دِن کہا کہ برطانیہ شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں امریکی جانچ سے اتفاق کرتا ہے۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے بھی اس بات کا خیرمقدم کیا کہ، اُس کے بقول، یہ ’واضح امریکی بیان‘ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ’یکسر ناقابلِ قبول‘ ہے۔
امریکی انٹیلی جنس حکام مہینوں سے یہ بات کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اُنھیں شک ہے کہ حکومت شام کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ لیکن، مسٹر اوباما نے کہا تھا کہ کسی مزید اقدام کرنے کے فیصلے سے قبل اُنھیں واضح ثبوت درکار ہے۔ اب تک امریکہ باغیوں کو بے ضرر نوعیت کی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔
جمعرات کے روز امریکہ کےنیشنل سکیورٹی کے معاون مشیر، بن رہوڈز نے کہا کہ صدر اوباما نے مخالفین کو براہِ راست فوجی حمایت فراہم کرنے کے اختیار کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی عہدیداروں نے بعدازاں تسلیم کیا کہ اس حمایت میں ہتھیار اور گولہ بارود شامل ہوگا۔
تاہم، وائٹ ہاؤس نے کہا ہےکہ امریکہ اب بھی فوجیوں کو شام روانہ کرنے کا حامی نہیں ہے اور یہ کہ دیگر ’فوجی آپشنز‘ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، مثلاً ’نو فلائی زون‘ کا نفاذ۔