وزیرِ دفاع گیٹس 30 جون کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ ان کی آخری اہم تقریر تھی اور اس میں انھوں نے نیٹو اتحاد پر جن الفاظ میں تنقید کی وہ بہت سخت تھے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں بین الاقوامی فورس نے نیٹو کی فوجی صلاحیتوں اور اس کے سیاسی عزم میں نقائص کو آشکار کر دیا ہے۔ جہاں تک لیبیا میں فوجی کارروائیوں کا تعلق ہے، تو مسٹر گیٹس نے کہا کہ اگرچہ اتحاد کے ہر رکن نے اس مشن کے حق میں ووٹ دیا تھا، لیکن نصف سے بھی کم نے اس میں شرکت کی ہے اور ایک تہائی سے بھی کم ملک بمباری کے مشن میں حصہ لینے پر تیار ہوئے ہیں۔
’’تاریخ کے سب سے طاقتور فوجی اتحاد کو ایک بہت کم آبادی والے ملک کی حکومت کے خلاف جو پوری طرح مسلح بھی نہیں ہے، کارروائی کرتے ہوئے صرف 11 ہفتے ہوئے ہیں۔ لیکن بہت سے اتحادی ملکوں کے پاس گولہ بارود کی کمی ہو گئی ہے، اور ایک بار پھر، امریکہ کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کرے۔‘‘
وزیرِ دفاع گیٹس نے ان ملکوں پر بھی تنقید کی جو بظاہر چاہتے ہیں کہ یورپی ملکوں کے دفاعی بجٹوں میں جو کمی ہوئی ہے، وہ ٹیکس ادا کرنے والے امریکیوں کے پیسے سے پوری کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’’مستقبل میں امریکہ کے سیاسی لیڈر، یعنی وہ لیڈر جو میری طرح سرد جنگ کے تجربے سے نہیں گزرے ہیں، ہوسکتا ہے کہ نیٹو میں سرمایہ لگانے کو اپنے پیسے کا صحیح استعمال نہ سمجھیں۔‘‘
اوہایو ویسلیان یونیورسٹی میں نیٹو کے ماہر شان کے کہتےہیں کہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ نیٹو کی تنظیم بہت پھیل گئی ہے۔ ’’سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ نیٹو کو اپنے علاقے سے باہر نکلنا چاہیئے ورنہ یہ تنظیم ختم ہو جائے گی۔ اسی خیال کے تحت نیٹو کا مشن پھیلنا شروع ہوا اور علاقے کے باہر کارروائیاں کی گئیں۔ اس طرح نیٹو کے آپریشنز تو پھیل گئے لیکن وسائل کم ہوتے گئے اور اہداف اور صلاحیتوں کے درمیان بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا۔‘‘
جیسا کہ وزیرِ دفاع گیٹس نے کہا ہے، نیٹو کو اب بے معنی اور غیر مؤثر ہونے سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ’’میں نے آپ کے سامنے جو نقشہ پیش کیا ہے اس کا حقیقی امکان موجود ہے۔ نیٹو اتحاد کا مستقبل اگر پوری طرح تاریک نہیں تو غیر واضح ضرور ہے۔‘‘
تاہم اچھی توقعات کا اظہار کرتے ہوئے، گیٹس نے کہا کہ رکن ممالک اگر چاہیں تو ان منفی رجحانات کو روک سکتے ہیں۔ کے کہتے ہیں کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی طرح، یورپی حکومتوں کو بھی اپنے بجٹ میں بہت بڑی کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے۔
’’یورپی ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوں گے اور دفاع پر پیسہ خرچ نہیں کریں گے جب تک ایسا کرنا ان کے اپنے مفاد میں نہ ہو۔ اس وقت، ان کا بہترین مفاد اسی میں ہے کہ وہ دفاع پر پیسہ خرچ کرنے سے بچیں۔ اور جب ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ اور کوشش کریں تو اس سے کوئی مدد نہیں ملتی کیوں کہ ان کے مفاد میں یہ ہے کہ وہ اس کام میں کم سے کم حصہ لیں کیوں کہ یہ ایسے ملک ہیں جو جانتے ہیں کہ جب تک وہ خود اپنی طرف سے کچھ نہیں کریں گے، امریکہ ان کی کمی پوری کرتا رہے گا۔‘‘
کے کہتے ہیں کہ یورپیوں کو کوئی ترغیب دی جانی چاہیئے تا کہ وہ اپنا نظریہ تبدیل کریں اور اتحاد میں زیادہ سرگرمی سے شرکت کریں۔
’’یہ مقصد حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ نیٹو کو پھر انہیں مقاصد پر واپس لایا جائے جو اس کے قیام کے وقت متعین کیے گئے تھے۔ اس کے تمام مشن اجتماعی دفاع تک محدود ہونے چاہئیں اور اس بات پر اصرار کیا جانا چاہیئے کہ اگلے تین سے پانچ برسوں میں ہم یورپی سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری یورپی یونین کے حوالے کر دیں گے۔ اس کے بعد، یہ ملک خود طے کر سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کے تعاون سے اپنے قومی سلامتی کے مفادات میں کس طرح سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ رابرٹ گیٹس کی جگہ وزیرِ دفاع کا عہدہ سنبھالنے والے کو ان سنگین مسائل سے نمٹنا ہوگا جو نیٹو کو درپیش ہیں۔