امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو پینٹاگون کو کئی واقعات میں سویلئن اموات کے پس منظر میں فوجی حملوں سے شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کم کرنے کے لیے اصلاحات کرنے کا حکم دیا۔
محکمہ دفاع کی قیادت کو جاری کردہ ایک ہدایت نامے میں آسٹن نے کہا کہ "شہریوں کا تحفظ بنیادی طور پر امریکی قومی مفادات کے حصول میں طاقت کے موثر اور فیصلہ کن استعمال سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرتےہوئے وزیر دفاع نے زور دیا کہ یہ ایک حکمت عملی اور اخلاقی ضرورت ہے۔
اس سلسے میں آسٹن نے پینٹاگون کے حکام کو 90 دن میں ایک ایسا منصوبہ تیار کرنے کو کہا ہے جویہ واضح کرے کہ جنگی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کو کیسے کم کیا جاسکے اور ان سے کیسے بچا جا سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان اور عراق کے تجربات سبق سیکھنے اور شہری نقصان کو ادارہ جاتی طریقے سے کم کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ وزیر دفاع کی جانب سے یہ اقدام کئی ایسے واقعات کے بعد سامنے آیا ہے جو پینٹاگون کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔
حال ہی میں افغانستان میں امریکی موجودگی کے آخری دنوں کے دوران اگست 2021 میں دارالحکومت کابل پر داغے گئے ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت 10 افراد کی سہواً ہلاکتیں ہوئی تھی۔
ایک اور واقعہ جسے نیویارک ٹائمز کی شائع ہونے والی رپورٹ میں سامنے لایا گیا امریکی فوج کےلیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔ رپورٹ میں مارچ 2019 میں ایک ناقص انداز میں کی گئی بمباری کا ذکر ہے جس میں اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش گروپ کے خلاف جنگ کے آخری دنوں میں تقریباً 70 شہری مارے گئے تھے۔
اخباردی نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ فوج نے مبینہ طور پر اس واقعے کی تحقیقات اور جوابدہی سے گریز کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیر دفاع کا اپنے محکمے کو تازہ ترین حکم شہریوں کی موت کی وجوہات کے ایک مطالعہ اور پینٹاگون کی طرف سے کمیشن کردہ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹنگ کے بعد آیا ہے جسں میں اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے امریکی فوج کے عمل کی ایک غیر تسلی بخش تصویرسامنے لائی گئی تھی۔
رپورٹنگ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج دشمن پر حملوں کی منصوبہ بندی پر اس قدر توجہ مرکوز کرتی ہے کہ اس عمل میں وسیع تر شہری تصویر نظر اندازہو جاتی ہے اور اسی مسئلے کی بنا پر ایسا جانی نقصان ہو سکتا ہے جس سے بچا جاسکتا ہے۔
رینڈ رپورٹ کے مطابق فوج شہریوں کی موت کے واقعات کی مناسب اور مستقل طور پر تفتیش اور اندراج نہیں کرتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسا مرکزی ڈیٹا بیس ہے جو اس مطالعے کو ممکن بنائے جس سے اس مسئلے کا حل حاصل ہو سکے۔
رینڈ رپورٹ کے مصنفین میں شامل مائیکل میکنرنی نے کہا کہ تحقیقات شاذ و نادر ہی کی جاتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مزید برآں ان واقعات پر ڈیٹا مینجمنٹ کے ضمن میں بھی خامیاں ہیں۔
تحقیقاتی ادارے رینڈ نے تجویزدی ہے کہ پینٹاگون میں ایک ایسے سنٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اہلکار اپنا سارا وقت سویلیئن نقصان پر مرکوز کریں اور اس طرح معلومات جمع کرنے اور جائزوں کے عمل کو مضبوط کیا جاسکے۔
ادارے نے اس بات کا بھی جائزہ لینےکے لیے کہا ہے کہ فوج امریکی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے غیر جنگجوؤں کے خاندانوں کو اخلاقی طور پر ادائیگیوں سےتعزیتی مداوا کس طرح کرتی ہے۔
(اس خبر میں شامل مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)