رسائی کے لنکس

امریکہ کی شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف کارروائی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر امریکہ کی فوج نے شام کے مشرقی علاقے میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی فوج نے درست اہداف کو نشانہ بنایا ۔ ان کا کہنا تھا، کہ "ہم جانتے ہیں کہ ہم نے کس ہدف کو نشانہ بنایا، اور ہمیں اعتماد ہے کہ وہ ہدف اسی شیعہ ملیشیا کی جانب سے استعمال کیا جا رہا تھا، جس نے حملے کئے۔"

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بائیڈن کا فی الوقت عراق کے بجائے صرف شام میں ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ عراقی حکومت کو اس وقت تک کچھ مزید مہلت دے رہا ہے، جب تک وہ پندرہ فروری کو امریکی فوجی تنصیبات پر ہوئے اس حملے کی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا، جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور کئی کنٹریکٹر زخمی ہوئے تھے۔

امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر بائیڈن کی ہدایت کی روشنی میں جمعرات کی شام کو یہ کارروائی کی گئی۔ اُن کے بقول فضائی کارروائی میں اُن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جو ایران کی حمایت یافتہ گروہوں کے زیرِ استعمال تھے۔

اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ امریکی فوج کی فضائی کارروائی کے نتیجے میں کیا نقصان ہوا ہے۔ تاہم کارروائی کے دوران حملے کی شدت اور کشیدگی کے خطرے کو کم کرنے کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکی فوج نے یہ کارروائی ایسے موقع پر کی ہے جب حال ہی میں عراق میں امریکی تنصیبات پر راکٹ حملے ہوئے تھے۔

امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ "اس کارروائی کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ امریکہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو سزا دینا چاہتا ہے۔"

حکام کے مطابق امریکہ صورتِ حال کو کشیدگی کی جانب نہیں لے جانا چاہتا۔

امریکی فوج نے گزشتہ چند برس میں راکٹ حملوں کے جواب میں متعدد بار جوابی کارروائی کی ہے۔ تاہم حالیہ کارروائی ایسے موقع پر کی گئی جب واشنگٹن اور تہران کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے پر ایک مرتبہ پھر بات چیت کی بحالی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

محکمۂ دفاع کے ترجمان کے مطابق صدر بائیڈن امریکیوں اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے۔ یہ کارروائی جواب کے طور پر کی گئی ہے اور ہمارا مقصد مشرقی شام اور عراق میں مجموعی طور پر کشیدگی کو کم کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعرات کو شام کی سرحد کے قریب ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے زیرِ استعمال متعدد تنصیبات کو تباہ کیا گیا ہے۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران عراق میں امریکی فورسز کے زیرِ استعمال تنصیبات پر راکٹ حملوں کے واقعات رونما ہوئے تھے۔

پندرہ فروری کو اربیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب واقع امریکہ کے زیرِ استعمال بیس پر راکٹ داغا گیا تھا جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور متعدد کنٹریکٹرز سمیت ایک فوجی زخمی ہوا تھا۔

مذکورہ کارروائی کے اگلے ہی روز عراق کے شمال میں واقع امریکی بیس کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک کنٹریکٹر زخمی ہوا۔

پیر کو ایک مرتبہ پھر عراق کے گرین زون میں راکٹ داغے گئے جہاں امریکہ سمیت مختلف ملکوں کے سفارت خانے موجود ہیں۔

دوسری جانب رواں ہفتے کے آغاز میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم کتائب حزب اللہ نے امریکی فورسز کو راکٹ حملوں سے نشانہ بنانے کی کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

عراقی حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں کی ذمہ داری بعض چھوٹے گروہوں نے قبول کی ہے جس کا مقصد امریکی فورسز کو خوف زدہ کرنا ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ نے 2019 میں عراق میں ایک بڑی جوابی کارروائی کی تھی جس میں ایران کے ملٹری کمانڈر قاسم سلیمانی اور کتائب حزب اللہ کے چیف مارے گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG