امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے حالیہ دنوں میں کیے جانے والے ہائپر سونک میزائل تجربے سے چین کی فوج کی بڑھتی طاقت پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس لمحے کا موازنہ روس کی جانب سے 1950 کی دہائی میں سپوتنک-ون سیٹلائٹ کی لانچنگ کے موقعے سے نہیں کرتے۔
بدھ کو اس سوال پر کہ کیا چین کے 27 جولائی کے میزائل تجربے کو سپوتنک کا لمحہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ایسی تشبیہات کا استعمال نہیں کرتے۔
امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق 50 کی دہائی میں سرد جنگ کے آغاز میں امریکہ اور سوویت یونین دونوں خلا میں سیٹلائٹ بھیجنے پر کام کر رہے تھے۔ البتہ چار اکتوبر 1957 کے روز سوویت یونین نے خلا میں سپوتنک-ون نامی سیٹلائٹ بھیج کر اس میدان میں سبقت حاصل کر لی تھی جس سے امریکہ میں بڑے پیمانے پر صدمے کی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ اور روس کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو آواز کی رفتار سے بیس گنا تیزی سے سفر کرتے ہیں۔
SEE ALSO: چین، تائیوان تنازع ہے کیا اور بیجنگ اسے 'ریڈ لائن' کیوں سمجھتا ہے؟آسٹن نے جہاں چینی فوج کی صلاحیت کو امریکہ کے لیے تیزی سے بڑھتا ہوا چیلنج قرار دیا وہیں وضاحت کی کہ امریکہ تمام شعبوں میں اپنی صلاحیت بڑھانے پر متوجہ ہے اور صرف ہائپر سونک میزائل کی جانب اس کی توجہ نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے ’فنانشل ٹائمز‘ کے مطابق چین کا میزائل تجربے کے دوران اپنے ہدف سے کئی میل دور گرا تھا البتہ یہ پہلی بار ہے کہ کسی بھی ملک نے زمین کی دوسری جانب تک پہنچنے والے ہائپر سونک ہتھیار کا تجربہ کیا ہے۔
ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے سفر کرتا ہے اور اس کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔
چین کی جانب سے ہائپر سونک میزائل کے تجربے کی تردید کی گئی ہے۔ اس کے مطابق وہ دوبارہ قابل استعمال خلائی جہاز کا تجربہ کر رہا تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی بی ایس نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کے وائس چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جان ہیٹن نے اس معاملے پر قدرے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بہت اہم صلاحیت ہے۔ یہ بہت سی چیزوں کو تبدیل کر دے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اس چینی تجربے کا سپوتنک کے لمحے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے پس منظر میں یہ بہت عمدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپوتنک کی وجہ سے امریکہ میں ایک عجلت کی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ 27 جولائی کے تجربے سے ایسی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔
ان کا خیال تھا کہ ان تجربات کی وجہ سے امریکہ میں عجلت کی کیفیت پیدا ہونی چاہیے۔
گزشتہ ماہ امریکہ کے اعلیٰ ترین جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے ایک بیان میں اس تجربے کو انتہائی تشویش کا موجب قرار دیا تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے ’بلوم برگ ٹی وی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ یہ تو نہیں جانتے کہ یہ سپوتنک کا لمحہ ہے البتہ ان کے خیال میں یہ اس کے قریب تر ہے اور اس پر ان کی پوری توجہ ہے۔