امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ افغان قیادت طالبان کے قبضے سے علاقے واپس لینے کی کوشش کے سلسلے میں آبادی کے بڑے مراکز کے ارد گرد فورسز کو دوبارہ منظم کر رہی ہے جب کہ ملک سے امریکی فوج کا انخلا بدستور جاری ہے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ کارلا باب کے مطابق ہفتے کو ریاست الاسکا کی ایک ایئربیس کی طرف جاتے ہوئے وزیرِ دفاع نے اپنے ہمراہ جانے والے رپورٹرز کو بتایا کہ افغان رہنما طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے ارادے پر قائم بھی ہیں اور وہ اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
آسٹن کا کہنا تھا کہ افغان قیادت کے لیے سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ طالبان کا 'مومینٹم' کم کریں۔ اس کے بعد انہیں اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں لانا ہے جہاں وہ طالبان کے قبضے سے علاقوں کو واپس لے سکیں۔
افغان قیادت کے حوالے سے آسٹن نے کہا کہ وہ طالبان کی پیش قدمی روکنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کا 85 فی صد علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔
واشنگٹن میں قائم ادارے 'فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز' کے جریدے 'لانگ وار جرنل' کے مطابق یکم مئی سے شروع ہونے والے امریکی فوج کے انخلا سے اب تک طالبان نے اپنے زیرِ کنٹرول اضلاع میں تین گنا اضافہ کیا ہے۔
جریدے کے مطابق طالبان کے قبصے میں اضلاع کی تعداد 75 سے بڑھ کر اب افغانستان کے کُل 407 میں سے 220 اضلاع تک جا پہنچی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بدھ کو پینٹاگان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اندازے جو ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان افغانستان کے اطراف میں تیزی سے مختلف علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں، وہ حقیقت سے دُور نہیں ہیں۔
مارک ملی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے 212 ضلعی مراکز جو کہ ملک کے کل اضلاع کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔ اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور طالبان جنگجو ملک کے 34 میں سے 17 صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع کے پریس سیکریٹری جان کربی نے کہا ہے کہ امریکی فوج نے افغان فورسز کی حمایت میں طالبان کے خلاف گزشتہ دنوں متعدد فضائی کارروائیاں کی ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے 31 اگست کو مکمل ہونے والے انخلا تک ان کے پاس افغان حکومت کی حمایت میں طالبان کے خلاف فضائی کارروائیاں کرنے کا اختیار ہے۔
البتہ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ، جنرل فرینک مکینزی کے مطابق 31 اگست کے بعد افغانستان میں امریکی کارروائیوں کا مقصد صرف القاعدہ اور داعش کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے آپریشن کرنا ہو گا۔