امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں افغان امن عمل سمیت خطے کی مجموعی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات میں افغانستان میں امریکی ریزولیوٹ اسپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر بھی موجود تھے۔
سفارت خانے کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستانی عسکری قیادت نے افغان امن عمل اور دیرپا استحکام کے لیے اپنا عزم دہرایا۔ پاکستانی فوجی قیادت نے افغان مسئلہ کے سیاسی حل میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے دوران امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے معاملے سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی ہے۔
پیر کو ہونے والی اس ملاقات میں افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی خلیل زاد کے ہمراہ تھے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر اور افغانستان میں تشدد میں اضافے کی وجہ سے امن معاہدے میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
اگرچہ افغان حکومت نے طالبان کے 360 سے زائد قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور طالبان نے بھی افغان حکومت کے 20 قیدی رہا کیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب تک تمام قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں فریقین کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنا ہیں جس کے بدلے طالبان ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کریں گے۔
قطر میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد اور امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی بردار سے ملاقات کی ہے۔ اُن کے بقول، اس ملاقات کی میزبانی قطر کے وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِ اعظم عبدالرحمن الثانی نے کی ہے۔
اگرچہ اب تک امریکہ کی طرف سے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
قبل ازیں امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے ایک مختصر بیان میں بتایا تھا کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی قطر میں طالبان کے نمائندوں سے پیر کو ملاقات کریں گے جس کے دوران امن معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل مشکلات پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
سہیل شاہین کے مطابق فریقین نے پیر کو امن معاہدے کی خلاف ورزیوں سمیت دیگر معاملات اور ان کے حل کے طریقۂ کار کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
سہیل شاہین نے اگرچہ اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی ہے لیکن حال ہی میں طالبان نے امریکہ پر افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم امریکی فوج نے طالبان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے فوجی کارروائیاں افغان فورسز کے خلاف کارروائیوں کے دفاع میں کی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ 29 فروری کو دوحہ میں امریکہ طالبان معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد مارچ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے پہلے مرحلے میں فریقین کے درمیان قیدیوں کا مکمل تبادلہ ہونا باقی ہے لیکن صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ طالبان قیدیوں کی مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔
صدارتی حکم کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے 360 سے زائد قیدی رہا کر دیے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے 1500 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں طے پانے والے معاہدے کے بعد افغان امن عمل میں تاخیر ہورہی ہے جو امریکہ کے لیے باعث تشویش ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تاخیر کی دو وجوہات ہیں ایک تو طالبان کے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اور دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان جاری سیاسی اختلافات ہیں۔
رحیم اللہ کا کہنا ہے کہ امریکہ ان دونوں معاملات کو حل کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کے بقول غنی اور عبداللہ کے درمیان ایک جامع حکومت کے قیام لیے کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
لیکن دوسری طرف رحیم اللہ کے بقول طالبان یہ کہہ چکے ہیں وہ بین الاٖٖٖفغان مذاکرات میں اسی وقت حصہ لیں گے جب ان کے قیدی رہا ہوں گے۔ وہ امریکہ سے کہہ رہے کہ وہ ان کے قیدیون کی رہائی کے لیے افغان حکومت پر اپنا اثر وسوخ استعمال کرے۔
دوسری طرف امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کے حملے میں کمی ہو اور دوحہ میں طالبان اور امریکی عہدے داروں کے درمیان ہونے والی ملاقات اس حوالے سے اہم ہے۔
'بال اب طالبان کے کورٹ میں ہے'
افغان صدر کے نائب صدارتی ترجمان داوا خان میناپل نے کہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری رہے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 'بال اب طالبان کے کورٹ میں ہے کہ اب وہ بھی کچھ کر کے دکھائیں۔"
نائب صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام جنگ بندی چاہتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے رہا کیے گئے افراد کی شناخت سے متعلق ترجمان نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
سابق طالبان رہنما اکبر آغا کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کو رہا ہونے والے قیدیوں کی شناخت ظاہر کرنی چاہیے۔ قندھار کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق رہا ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر سویلین ہیں۔ البتہ افغان حکومت نے تاحال اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔