امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتا ہے اور یہ کہ سب باتیں کھلے بندوں بیان نہیں کی جاتیں۔
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے محکمہ خارجہ میں روزانہ کی پریس بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہی۔
ترجمان سے سوال کیا گیا تھا کہ ایسے میں جب پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز پر مقدمے چلانے کی بات ہو رہی ہے، صحافی لاپتہ ہو رہے ہیں، 80 سال کے سابق عہدیداروں کو حراست میں لیا جا رہا ہے، امریکہ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر خاموش کیوں ہے؟
SEE ALSO: پاکستان کی صورت حال پر تبصرہ نہیں کریں گے، افراد کو اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے: امریکی محکمہ خارجہجواب میں محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا، "ایسے امور پر جو امریکہ کے لیے اہم ہیں اور وسیع تر علاقائی سلامتی اوراستحکام کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، ہم اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ براہ راست بات کرتے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "جیسا کہ میں نے پہلے کہا، بلا شبہ ہم ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جو امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے مفاد میں ہے اور جب ہم براہ راست بات کرتے ہیں تو ہمارے سفارتی رابطوں کی تمام باتیں کھلے بندوں بیان نہیں کی جاتیں۔"
SEE ALSO: جنگل کے قانون کی زد میں ہیں، عمران خان کا شاہ محمود قریشی کی دوبارہ گرفتاری پر رد عملواضح رہے کہ پاکستان میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو پر تشدد احتجاج کے دوران ملک میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور انہیں نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات کے بعد مظاہرین، خاص طور پر عمران خان کی جماعت، پی ٹی آئی کے کارکنوں اور قائدین کے خلاف کریک ڈاؤن اور ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کی حکومت کہہ چکی ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث سویلینز کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جانے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تاہم امریکہ کی جانب سے اس بارے میں صرف یہی کہا جاتا رہا ہے کہ تمام معاملات سے قانون کے مطابق نمٹا جائے اور یہ کہ امریکہ پاکستان میں کسی ایک فرد یا کسی ایک پارٹی کی حمایت نہیں کرتا۔
SEE ALSO: امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن کی پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت کے تاثر کی تردیدامریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طویل سزا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی سزا پر نظرِ ثانی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس کا جواب قانون نافذ کرنے والے حکام ہی دے سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے میں ممکن ہو سکے جو، اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے سلسلے میں امریکی حکام کی مدد کرنے کے الزام میں پاکستان میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں؟
جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا، " اس معاملے میں بھی جواب قانون نافذ کرنے والے حکام ہی دے سکتے ہیں۔" اور یہ کہ وہ مفروضوں پر بات نہیں کر سکتے۔