رسائی کے لنکس

کیا بحرانوں سے دوچارپاکستان عالمی سطح پر اپنی اہمیت کھورہا ہے؟


فائل فوٹو: پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 15 مئی 2023 کو لاہور، پاکستان میں عدالت میں پیشی کے بعد سیکیورٹی ایک گاڑی میں لے جا رہی ہے۔
فائل فوٹو: پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 15 مئی 2023 کو لاہور، پاکستان میں عدالت میں پیشی کے بعد سیکیورٹی ایک گاڑی میں لے جا رہی ہے۔

پاکستان کو اس کے جغرافیائی محل وقوع، بڑی آبادی کی مارکیٹ ہونے اور اقتصادی ترقی کے امکانات کے حوالے سے خطے کا اہم ملک سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن بعض امریکی مبصرین کی نظر میں گزشتہ کچھ عرصے سے اندرونی بحرانوں میں الجھے ملک کی بین الااقوامی حیثیت کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

یہاں تک کہ اب یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا بحرانوں میں گھرا پاکستان بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ایک موثر خارجہ پالیسی بنا کر اپنے مفادات کا دفاع کر سکے گا؟

واشنگٹن میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری مسابقت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کی زد میں نہ آئے اور دوسری جانب عالمی طاقتوں کے اس مقابلے سے پیدا ہونے والے اقتصادی اور تجارتی مواقع سے ملک کیسے بروقت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

دریں اثنا ، ہمسایہ ملک بھارت کی عالمی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وہ نئے اقتصادی اتحادوں کا اہم کردار بن کر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے جس سے، ماہرین کی نظرمیں، پاکستان بین الاقوامی سطح پر مزید کمزور نظر آئے گا۔

امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے اندرونی اقتصادی اور سیاسی چیلنجز پر قابو پاکر استحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا دارو مدار براہ راست اس کی اندرونی صحت پر منحصر ہوتا ہے۔

جنوبی اپشیا پر نظر رکھنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ملک کے اقتصادی جمود کی صورت حال اور حالیہ دنوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے ڈرامائی انداز میں حراست میں لیے جانے سے طوالت پکڑتے ہوئے مسائل دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ان چیلنجز سے بہتر اور جمہوری انداز میں نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔اور اگر ایسا ہے تو پاکستان دنیا کے لیے کیسے ایک ذمہ دار اور کار آمد ملک ثابت ہو سکتاہے؟

اسٹمسن سنٹر میں جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر الیزبتھ تھریلکیلڈ کہتی ہیں کہ اندرونی بحرانوں سے نبرد آزما پاکستان کو یہ سوچنا ہے کہ وہ کیسے دنیا میں اپنی اہمیت کو ایک مستحکم ملک اور اقتصادی طور پر پر کشش منزل کے طور پر پیش کرے۔

وائس آف امریکہ نے ان سے امریکہ کی طرف سے ویسٹ ایشیا یعنی مغربی ایشیا کے خطے میں ایک نئے امریکی انیشی ایٹو کے تحت بھارت کو مشرق وسطی کے ممالک سے بہتر سمندری اور زمینی رابطے قائم کیے جانے کے ضمن میں پاکستان کے حوالے سے ان کی رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ تناظر میں یہ ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو ایک اہم کردار کے طور پر پیش کرسکے۔کیونکہ، ان کے مطابق، پہلے پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور ماحولیات کے مسائل پر توجہ دینا ہو گی تاکہ پاکستان دنیا میں اپنے آپ کو ایک ایسے مستحکم ملک کے طور پر پیش کرے جس میں دنیا کے ممالک سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوں۔

"میرے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حکومتی عمل داری کا ہے ۔ اقتصادی چیلنجز اس وقت بہت گھمبیر دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ سیاسی بحران کا کچھ حل ممکن ہو سکتا ہے۔"

الیزبتھ تھریلکیلڈ کہتی ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان کو اس وقت مختلف عالمی حالات کا سامنا ہے جب کہ ماضی میں سرد جنگ اور افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی جنگوں کے دوران اسلام آباد کو اقتصادی امداد ملتی رہی ہے۔

اب ان حالات میں پاکستان کو بہت کام کرنا ہوگا تاکہ ملک میں ایسی اصلاحات کی جائیں جن سے پاکستان اپنے آپ کو ایسے مسابقتی ملک کے طور پر پوزیشن کرے، جس کے ساتھ کام کرنے میں دنیا کو دلچسپی ہو۔"

امریکہ کے ویسٹ ایشیا یعنی مغربی ایشیا کو آپس میں ملانے کے منصوبے کے علاوہ اس ہفتے روس اور ایران نے رشت-استارا ریلوے کے نام کی راہداری قائم کرنے کا معاہد ہ کیا ۔ اس معاہدے کے تحت بھارت ، ایران، روس، آذربائیجان اور دیگر ممالک کو ریل اور سمندر کے ذریعے مربوط کرنا ہے - ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ اس پرا جیکٹ کے ذریعہ ایک بڑے عالمی تجارتی راستے کے طور پر نہر سوئیز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان نئے منصوبو ں میں پاکستان کی عدم موجودگی اس کے جیو اکنامکس کی اس دوڑ میں پیچھے رہنے حتیٰ کہ الگ تھلگ رہنے کے امکانات کو ظاہر کرتی ہے۔

دوسری طرف پی ڈی ایم الحاق پر مشتمل پاکستان کی وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سالہاسال سے چلتے آرہے اقتصادی اور مالی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو پورا کردیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کا اصرار ہے کہ اس نے انتہائی کٹھن حالات میں سیاسی طور پر مہنگے اور مشکل فیصلے کرکے معیشت کو بہتری کی راہ پر ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن عمران خان کی احتجاج کی سیاست ے آڑے آ رہی ہے۔

واشنگٹن کے " نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈپالیسی" کے یوریشین سیکیورٹی کے سینئر ڈائریکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کا بہت حد تک دارومدار اقتصادی آزادی سے ہوتا ہے، جب کہ پاکستان موجودہ صورت حال کے باعث دنیا کی نظروں میں ایک اہم کردار نہیں ہے۔

کیا پاکستان میں حالیہ مہنگائى کی لہر صرف معاشی مسئلہ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:19:55 0:00

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے مسلسل بڑھتے ہوئے عالمی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی دہلی، امریکہ، چین اور روس تمام بڑے ممالک کا کاروباری شراکت دار ہے دوسری جانب پاکستان اپنے روایتی عرب اور خلیج کے دوستوں سے بھی دور ہوتا جا رہا ہے۔

"ہم جب پاکستان کا بھارت سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بھارت اقتصادی طور پر ایک آزاد ملک ہے جب کہ ہم ابھی تک بین الاقوامی امداد پر انحصار کرتےہیں۔"

ایسے حالات میں خارجہ پالیسی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان چین کو اپنے قریب ترین اتحادی ملک کے طور پر دیکھ رہا ہے کیونکہ اسلام آباد کے مطابق بیجنگ نے حال ہی میں پاکستان کی معیشت کو سنبھالہ دینے کے لیے نہ صرف نیا قرض دیا بلکہ قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں اضافے کی رعایت بھی دی ہے۔

اقتصادی مشکلات کے اس دور میں سی پیک ( چین پاکستان اقتصادی راہ داری) پاکستان کے لیے امید کی کرن بن کر سامنے آئی جسے پاکستانی حکام اکثر ایک "گیم چینچر" منصوبہ کہتے ہیں ۔ لیکن ماہرین نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کے تحت کئی ارب ڈالر کے بنیادی ترقیاتی ڈھانچے کے پراجیکٹس بھی پاکستان کی ناکافی کوششوں اور ناقص حکومتی عمل داری کی وجہ سے سست روی کا شکار ہیں۔

اس سلسلے میں الیزیبتھ تھریلکیلڈکہتی ہیں اگرچہ پاکستان اکثر یہ بیان دیتا ہے کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ تعلقات میں عدم توازن کا انتخاب نہیں کرے گا اور دونوں سے قریبی تعلقات استوار کرے گا ، لیکن اسلام آباد کا بیجنگ کی طرف جھکاؤ واضح نظر آتا ہے۔

جب کہ کامران بخاری کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کی مسابقت سے نکلنا پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

سیاسی بے یقینی: ڈالر مہنگا، اسٹاک مارکیٹ میں مندی
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:05 0:00

ماہرین کہتےہیں کہ بین الااقوامی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان پروگرام کے تحت "بیل آوٹ" پیکچ میں پیش رفت مشکل دکھائی دیتی ہے ۔ اور اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال بھی ہوجاتا ہے تو پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے بہت بڑی رقوم کی ضرورت ہو گی جو فی الحال پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

کامران بخاری کے الفاظ میں پاکستان نئے عالمی منظر نامے سے فائدہ اٹھانے کے مواقع" کھو نہیں رہا بلکہ کھو چکا ہے اور اب ملک کی اقتصادی بقا کا معاملہ درپیش ہے" کیونکہ پاکستان کی معیشت ایسی نہج پر آ گئی ہے جہاں اس کے دوست بھی اربوں ڈالر کی رقوم خرچ کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان نے کبھی بھی اپنے آپ کو جدید خطوط پر اپنی صنعتی ترقی کے امکانات کے حوالے سے عالمی سطح پر پوزیشن نہیں کیا اور موجودہ بحران دنیا میں اسلام آباد کے بارے میں غیر موافق اشاروں کا باعث بن رہا ہے۔

"چاہے وہ سرد جنگ میں ترقی کے کچھ سال ہوں یا نائن الیون کے بعد امداد کی بدولت ترقی کی شرح میں اضافہ، پاکستان نے کبھی بھی اپنے ترقی کے امکانات اور پوٹینشل کو اقتصادی ترقی کی بنیاد نہیں بنایا۔"

مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں کہ جب بیرونی سرمایہ کار دیکھتے ہیں کہ پا کستان کی اعلیٰ عدالت کے ملک میں عمران خان کے خلاف اقدامات سے پیدا ہونے والی پر تشدد کاروائیوں اور سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے فیصلوں کو رد کیا جاتا ہے اور سویلین مظاہرین کو ملٹری عدالتوں میں مقدمات چلانے کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، تو سرمایہ کار سوچتے ہیں کہ وہ ایسے ملک میں کیوں جائیں جہاں عدالت کے فیصلوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔

جہاں تک مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے ماضی کے اچھے تعلقات اور اثرو رسوخ کا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت ان امیر ملکوں کے بھارت کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق خطے میں چلتے آ رہے تنازعہ کشمیر اور افغانستان میں بدامنی کے حالات بھی پاکستان کی تجارت خصوصاً بھارت کے ساتھ تجارت، کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں اور پاکستان کو ان کے حل پر توجہ دینا بھی ایک بڑا چیلنج ہے جب کہ ٘مغربی ممالک میں جاری ہونے والی رپورٹس اکثر پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادئ رائے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی سے جنم لینے والے خطرات کے حوالے سے الیزبتھ تھریلکیلڈ کہتی کہ تصور کریں کہ پاکستان اگر اپنے مسائل کو حل نہیں کر پاتا اور اس موسم گرما میں گزشتہ سال کی طرح بارشوں سے سیلاب کی صورت حال کا سامنا ہو تو ملک کہاں کھڑا ہوگا۔

بقول کامران بخاری پاکستان کو اپنی اقتصادی اہمیت کو دنیا کی نظر میں اجاگر کرنے اور خارجی مفادات کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی جوکہ عملی طور پر اس وقت نظر نہیں آ رہی۔

XS
SM
MD
LG