کرنل ڈیوس کے مطابق امریکی یونٹ افریقن یونین کے امن فوجی مشن اور صومالیہ کی سکیورٹی فورسز کی مشاورتی معاونت کرے گا۔
امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے صومالیہ میں ایک چھوٹا فوجی یونٹ قائم کیا ہے جس کا کام مقامی فورسز کو مشاورتی معاونت فراہم کرنا ہے۔ 1990 کے اوائل کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس ملک میں امریکہ فوجی تعینات کیے گئے ہوں۔
امریکہ کی افریقہ کمانڈ کے ترجمان کرنل ٹام ڈیوس نے کہا کہ یہ چھوٹی ٹیم اکتوبر میں بھیجی گئی تھی جس نے گزشتہ مہینے سے مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکی عہدیدار کے مطابق یونٹ میں پانچ کے قریب فوجی شامل ہیں۔
صومالیہ میں 1993 کے اواخر میں دو ’بلیک ہاک‘ ہیلی کاپٹر مار گرانے سے 18 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور اس کے چند ہی ماہ کے بعد تک یعنی 1994 کے اوائل تک اس ملک میں آخری مرتبہ امریکی فوجی موجود تھے۔
کرنل ڈیوس کے مطابق امریکی یونٹ افریقن یونین کے امن فوجی مشن اور صومالیہ کی سکیورٹی فورسز کی مشاورتی معاونت کرے گا۔
صومالیہ اور افریقین امن مشن کی فورسز القاعدہ سے منسلک الشباب گروپ کے جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں۔
سرکاری فورسز نے 2011ء میں دارالحکومت موغادیشو کا الشباب سے کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تھا، لیکن شدت پسند گروپ اس کے بعد سے وقفے وقفے سے دارالحکومت اور دیگر علاقوں میں حملے کرتا آیا ہے۔
الشباب گروپ ملک سے باہر بھی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے جن میں گزشتہ سال ستمبر میں کینیا کے شہر نیروبی کے مرکزی ’شاپنگ‘ سینٹر پر حملہ کر کے لوگوں کو یرغمال بنانا بھی شامل ہے۔ اس حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکہ کی افریقہ کمانڈ کے ترجمان کرنل ٹام ڈیوس نے کہا کہ یہ چھوٹی ٹیم اکتوبر میں بھیجی گئی تھی جس نے گزشتہ مہینے سے مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکی عہدیدار کے مطابق یونٹ میں پانچ کے قریب فوجی شامل ہیں۔
صومالیہ میں 1993 کے اواخر میں دو ’بلیک ہاک‘ ہیلی کاپٹر مار گرانے سے 18 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور اس کے چند ہی ماہ کے بعد تک یعنی 1994 کے اوائل تک اس ملک میں آخری مرتبہ امریکی فوجی موجود تھے۔
کرنل ڈیوس کے مطابق امریکی یونٹ افریقن یونین کے امن فوجی مشن اور صومالیہ کی سکیورٹی فورسز کی مشاورتی معاونت کرے گا۔
صومالیہ اور افریقین امن مشن کی فورسز القاعدہ سے منسلک الشباب گروپ کے جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں۔
سرکاری فورسز نے 2011ء میں دارالحکومت موغادیشو کا الشباب سے کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تھا، لیکن شدت پسند گروپ اس کے بعد سے وقفے وقفے سے دارالحکومت اور دیگر علاقوں میں حملے کرتا آیا ہے۔
الشباب گروپ ملک سے باہر بھی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے جن میں گزشتہ سال ستمبر میں کینیا کے شہر نیروبی کے مرکزی ’شاپنگ‘ سینٹر پر حملہ کر کے لوگوں کو یرغمال بنانا بھی شامل ہے۔ اس حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔