واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ جنگ زدہ افریقی ملک صومالیہ میں مسلم شدت پسند تنظیم 'الشباب' کے خلاف کاروائی کے لیے مزید غیر ملکی فوجی دستوں کی ضرورت ہے۔
صومالیہ کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب نِک کے کے بقول 'الشباب' صومالیہ میں جاری قیامِ امن کی کوششوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے جس سے نبٹنے کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا ہوگا۔
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں پیر کو 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی ادارے کے ایلچی کا کہنا تھا کہ 'القاعدہ' سے منسلک شدت پسند صومالی تنظیم اب ماضی کی طرح طاقت ور نہیں رہی لیکن اس کے باقی ماندہ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے مزید فوجی کاروائیوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'الشباب' کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صومالیہ کے دیگر علاقوں میں موجود اس کے ٹھکانوں کے خلاف بڑی کاروائی کی ضرورت ہے جس کے لیے فوجی وسائل درکار ہوں گے۔
صومالیہ کے بڑے شہروں کو 'الشباب' کے قبضے سے چھڑانے کے لیے 2011ء اور 2012ء میں کی جانے والی فوجی کاروائیوں میں افریقی یونین کے فوجی دستوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
لیکن پڑوسی ملک ایتھوپیا کی جانب سے اپنے فوجی دستے صومالیہ سے واپس بلانے کے فیصلے کے بعد 'افریقی یونین' کا فوجی مشن افرادی قوت کی کمی کا شکار ہوگیا ہے اور ملک کے وسیع رقبے پر پھیلے 'الشباب' کے ٹھکانوں کے خلاف جارحانہ کاروائی جاری رکھنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
عالمی ادارے کے خصوصی مندوب نے 'وی او اے' کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل رواں ماہ صومالیہ کے لیے خصوصی مشن کا جائزہ لے گی جس کے دوران میں وہاں تعینات بین الاقوامی فوجیوں کی تعداد میں عارضی اضافے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
'الشباب' کے جنگجو صومالیہ کے پڑوسی ممالک کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں اور انہوں نے گزشتہ ماہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک شاپنگ مال پر گزشتہ ماہ کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
خانہ جنگی کا شکار صومالیہ کی اپنی فوج ضروری ساز و سامان اور تربیت سے محروم ہے جس کے باعث وہ بغیرکسی بیرونی مدد کے 'الشباب' کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے سے قاصر ہے۔
صومالیہ کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب نِک کے کے بقول 'الشباب' صومالیہ میں جاری قیامِ امن کی کوششوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے جس سے نبٹنے کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا ہوگا۔
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں پیر کو 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی ادارے کے ایلچی کا کہنا تھا کہ 'القاعدہ' سے منسلک شدت پسند صومالی تنظیم اب ماضی کی طرح طاقت ور نہیں رہی لیکن اس کے باقی ماندہ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے مزید فوجی کاروائیوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'الشباب' کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صومالیہ کے دیگر علاقوں میں موجود اس کے ٹھکانوں کے خلاف بڑی کاروائی کی ضرورت ہے جس کے لیے فوجی وسائل درکار ہوں گے۔
صومالیہ کے بڑے شہروں کو 'الشباب' کے قبضے سے چھڑانے کے لیے 2011ء اور 2012ء میں کی جانے والی فوجی کاروائیوں میں افریقی یونین کے فوجی دستوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
لیکن پڑوسی ملک ایتھوپیا کی جانب سے اپنے فوجی دستے صومالیہ سے واپس بلانے کے فیصلے کے بعد 'افریقی یونین' کا فوجی مشن افرادی قوت کی کمی کا شکار ہوگیا ہے اور ملک کے وسیع رقبے پر پھیلے 'الشباب' کے ٹھکانوں کے خلاف جارحانہ کاروائی جاری رکھنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
عالمی ادارے کے خصوصی مندوب نے 'وی او اے' کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل رواں ماہ صومالیہ کے لیے خصوصی مشن کا جائزہ لے گی جس کے دوران میں وہاں تعینات بین الاقوامی فوجیوں کی تعداد میں عارضی اضافے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
'الشباب' کے جنگجو صومالیہ کے پڑوسی ممالک کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں اور انہوں نے گزشتہ ماہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک شاپنگ مال پر گزشتہ ماہ کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
خانہ جنگی کا شکار صومالیہ کی اپنی فوج ضروری ساز و سامان اور تربیت سے محروم ہے جس کے باعث وہ بغیرکسی بیرونی مدد کے 'الشباب' کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے سے قاصر ہے۔