رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں نیوٹ گنگرچ کو مٹ رومنی پر 6 سے 17 پوائنٹس کی سبقت حاصل ہے ۔ گنگرچ کی پوزیشن آیووا، ساؤتھ کیرولائنا ، اور فلوریڈا جیسی ریاستوں میں بھی مضبوط ہے ۔ یہ ریاستیں جہاں ووٹنگ شروع میں ہو جاتی ہے، صدارت کے لیے نامزدگی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رومنی اور بعض دوسرے ریپبلیکن امیدواروں نے اس امید پر کہ گنگرچ کی مقبولیت کا زور ٹوٹ جائے ، ان پر حملے تیز کر دیے ہیں۔
گنگرچ کہتے ہیں کہ وہ اپنا رویہ مثبت رکھنا چاہتے ہیں۔’’جب رائے عامہ کے جائزوں میں، میں سب سے نیچے تھا، اس وقت بھی میرا رویہ مثبت تھا۔ ا ب جب کہ میں سب سے آگے ہوں، میں نے اپنا رویہ مثبت ہی رکھا ہے ۔‘‘
رومنی گنگرچ پر یہ کہتے ہوئے تنقید کرتے ہیں کہ سابق اسپیکر ایسے قدامت پسند ہیں جن پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ بتانے میں ذرا بھی تامل نہیں ہو گا کہ وہ گنگرچ سے کس طرح مختلف ہیں۔’’سیاست اسی کا نام ہے ۔ سیاست میں رونے دھونے سے کام نہیں بنتا۔‘‘
گنگرچ اپنی ذاتی زندگی پر ہونے والی تنقید سے بھی بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور سے اپنے پچھلے اعتراف سے کہ وہ اپنی پچھلی دو شادیوں کے دوران اپنی بیویوں کے وفادار نہیں تھے ۔
ریاست ٹیکسس کے گورنر رک پیری نے ایک حالیہ مباحثے میں کہا’’میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ اگر آپ اپنی بیوی کے وفا دار نہیں ہیں، تو پھر آپ اپنے کاروبار میں اپنے پارٹنر کے ساتھ بھی دھوکہ کریں گے۔‘‘
گنگرچ نے اپنی ذاتی خامیوں کا اعتراف کیا ہے اور معافی کی درخواست کی ہے ۔ یہ ایسی چیز ہے جو ایوانجیلیکل عیسائیوں کو پسند آئے گی جن کا اثر و رسوخ ریپبلیکن پارٹی میں بہت زیادہ ہے ۔ گنگرچ نے کہا ہے’’میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو خود فیصلہ کرنا ہے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے صاف صاف کہا ہے کہ مجھ سے بعض اوقات غلطیاں ہوئی ہیں۔ میں نے خدا سے معافی مانگی ہے ۔ مجھے سمجھوتہ کرنا پڑا ہے ۔‘‘
لیکن بعض ریپبلیکنز بھی کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں جب گنگرچ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر تھے، ان کا دور مشکلات اور اختلافات سے پُر تھا ۔ جن ریپبلیکنز کا یہ خیال ہے کہ گنگرچ اپنی افتادِ طبع اور مزاج کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہیں کہ وہ امریکہ کے صدر بنیں، ان میں نیو یارک کے ریپبلیکن نمائندے پیٹر کنگ بھی شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں’’انھوں نے ریپبلیکن پارٹی اور امریکی کانگریس کو جتنا نقصان پہنچایا وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرا فرض ہے کہ اپنے حلقۂ انتخاب کے لوگوں ، اور اپنے ملک کی خاطر دوبارہ ایسا نہ ہونے دوں۔‘‘
Quinnipiac یونیورسٹی کے پولسٹر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، قدامت پسند ریپبلیکنز میں مقبولیت حاصل کرنے والے تازہ ترین امیدوار گنگرچ ہیں۔’’ریپبلیکن ووٹرز کی بہت بڑی تعداد خود کو ٹی پارٹی کا حامی کہتی ہے جو قدامت پسند ریپبلیکن ہیں، اور ان لوگوں کو ایک موزوں امید وار کی تلاش ہے۔‘‘
براؤن کہتے ہیں کہ قدامت پسندوں کو کسی ایسے امیدوار کی تلاش ہے جو رومنی کا متبادل ہو سکے۔ کافی عرصے سے خیال یہ تھا کہ رومنی ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔’’بعض وجوہات کی بنا پر، قدامت پسند ووٹروں کا یہ گروپ اس مرحلے پر مسٹر رومنی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ شاید ان کا خیال ہے کہ وہ صحیح معنوں میں قدامت پسند نہیں ہیں۔ وجہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، یہ گروپ مسٹر رومنی کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے ۔‘‘
نامزدگی کا عمل 3 جنوری کو آیووا میں صدارتی کاکسوں سے شروع ہو گا ۔ اس کے ساتھ ہی پرائمری انتخابات اور کاکس ووٹنگ شروع ہو جائے گی جو جون تک جاری رہے گی ۔ یہ عمل ستمبر کے شروع میں Tampa ، فلوریڈا میں ریپبلیکن پارٹی کے قومی کنونشن پر ختم ہو گا جس میں پارٹی کے نامزد امیدوار کا باقاعدہ انتخاب کیا جائے گا۔