نیوٹ گنگریچ کو امریکی سیاست میں اچانک جو نمایاں مقام حاصل ہوا ہے اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے وہ اپنا پہلا ٹیلیویژن اشتہار امریکہ کی وسط مغربی ریاست آیووا میں چلا رہے ہیں جہاں سے ریپبلیکنز کے درمیان نامزدگی کا مقابلہ شروع ہو گا اور 3 جنوری کو کاکس کی ووٹنگ ہو گی۔ گنگریچ اشتہار میں کہتے ہیں’’ہم مِل جُل کر کام کریں گے اور امریکہ کی تعمیرِ نو کریں گے جو ہم سب کو عزیز ہے ۔‘‘
رائے عامہ کے کئی قومی جائزوں میں اور آیووا اور ساؤتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں جو اس لحاظ سے اہم ہیں کہ وہاں شروع میں ووٹنگ ہوتی ہے، گنگریچ نے مقبولیت میں ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ صرف ایک مہینے قبل گنگریچ ریاست آیووا میں پانچویں نمبر پر اٹکے ہوئے تھے ۔
رومنی ریاست نیو ہیمپشائر میں بڑی محنت سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ریاست آیووا میں ووٹ ڈالے جانے کے ایک ہفتے بعد، یہاں 10 جنوری کو صدارت کے ریپبلیکن امیدوار کی نامزدگی کے لیے ملک کا پہلا پرائمری انتخاب ہو گا۔
رومنی کہتے ہیں’’امریکہ کو ان اصولوں پر واپس لانا ضروری ہے جن کی بدولت ہم ہمیشہ ایک عظیم ملک رہے ہیں۔ اسی وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری نامزدگی ہونا ضروری ہے ۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنی نامزدگی کے لیے کافی لوگوں کو قائل کر سکوں گا تا کہ میں امریکہ کا اگلا صدر بن جاؤں۔‘‘
ریاست نیو ہیمپشائر میں رومنی کو اب بھی سبقت حاصل ہے، لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گنگریچ دوسرے نمبر پر ہیں اور وہ رومنی کے قریب پہنچتے جا رہے ہیں۔
نیوٹ گنگریچ کو عروج جارجیا کے بزنس میں ہرمین کین کے اس اعلان کے فوراً بعد ملنا شروع ہوا کہ وہ اپنی صدارتی مہم معطل کر رہے ہیں۔ کین ان الزامات کا جواب دیتے دیتے تھک چکے تھے کہ ان کے ایک عورت سے تعلقات رہےہیں، اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں چار عورتوں کو جنسی طور پر تنگ کیا تھا ۔ انھوں نے ان تمام الزامات کی صحت سے انکار کیا ۔ اے بی سی نیوز کی پولیٹیکل ڈائریکٹر ایمی والٹر کہتی ہیں کہ ان کو جن ووٹروں کی حمایت حاصل تھی ، اب ان میں سے کچھ لوگ گنگریچ کی حمایت کریں گے۔
’’ہرمین کین کی علیحدگی کا سب سے زیادہ فائدہ نیوٹ گنگریچ کو ہی ہوگا کیوں کہ وہ انہیں پسند کرتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ گنگریچ کے بارے میں اچھی باتیں کہیں گے۔‘‘
گنگریچ کو اس بات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیئے کہ انھوں نے سیاسی منظر میں جو ہلچل مچائی ہے، اس کے نتیجے میں ان کے سیاسی پس منظر کی مزید چھان بین ہو گی۔ اس سال کے شروع میں جب ان کی انتخابی مہم کا آغاز ہوا، تو انہیں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض ریپبلیکنز کو ان کی ذاتی زندگی اور ماضی میں ان کے معاشقوں کے اعترافات کے بارے میں تحفظات تھے ۔
ان کے بعض حریفوں نے پہلے ہی ان کے کردار کے بارے میں سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں ۔ ان میں ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر رِک سنٹورم بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اے بی سی ٹیلیویژن کے پروگرام’دِس ویک‘ میں کہا’’میرے خیال میں ووٹروں کو ہر شخص کے مکمل ریکارڈ کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیئے، اور اس میں یقیناً ذاتی کردار بھی اہم ہے۔‘‘
گنگریچ کو امید ہے کہ انہیں جو اچانک مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس کے سہارے انہیں آیووا کے کاکس میں، جن میں صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، فتح حاصل ہو گی۔ لیکن سیاسی تجزیہ کار اسٹیورٹ روتھنبرگ کہتے ہیں کہ صدارت کے لیے ریپبلیکنز میں جو مقابلہ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اب بھی کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔
’’رائے عامہ کے جائزوں میں اب بہت سے مقامات پر ریپبلیکن پارٹی کے نامزدگی کے امیدواروں میں نیوٹ گنگریچ آگے معلوم دیتے ہیں ۔ لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس سے پہلے میچل باکمان کو اور پھر ہرمین کین آگے نکل گئے تھے۔ لہٰذا یہ مقابلہ ابھی تک انتہائی غیر یقینی ہے ۔‘‘
ہرمین کین کے اس فیصلے کے بعد کہ وہ اس مقابلے میں اپنی سرگرمیوں کو معطل کر رہے ہیں، اب صدارتی انتخاب میں نامزدگی کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے سات امیدوار باقی رہ گئے ہیں۔ لیکن امکان یہی ہے کہ اگر ان میں سے کچھ امیدواروں نے آیووا، نیو ہیمپشائر، اور ساؤتھ کیرولائنا میں، جہاں ابتدائی ووٹنگ کی آزمائش ہو جاتی ہے، اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا، تو وہ اس مقابلے سے دستبردار ہو جائیں گے ۔