امریکہ میں 17 سال بعد سزائے موت پر عمل درآمد

فائل

منگل کی صبح سپریم کورٹ نے موت کی سزا پر عمل درآمد کے حق میں فیصلہ سنایا، جس کے بعد ایک مجرم کو سزائے موت دے دی گئی۔ سپریم کورٹ کے سامنے سزائے موت پانے والے چار مجرموں کا مقدمہ پیش ہوا، جن میں سے تین کو اس ہفتے اور چوتھے کو اگلے ماہ سزائے موت دی جانی ہے۔

منگل کی صبح سویرے عدالت عظمیٰ نے زیریں عدالت کے سزائے موت پر عمل درآمد کو موخر کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا اور فیصلہ سنایا کہ موت کی سزا پر عمل درآمد کیا جائے۔ پانچ ججوں نے فیصلے کے حق میں اور چار ججوں نے مخالفت میں رائے دی۔

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد انڈیانا کی وفاقی جیل میں ڈینیس لیویس نامی مجرم کو انتہائی طاقتور خواب آور 'پینٹو بار بیٹال' کا ڈوز دے کر موت کی ننید سلا دیا گیا۔

لی پر الزام ثابت ہوا کہ اس نے 1996 میں اپنے خاندان کے تین افراد کو قتل کیا تھا، جن میں آٹھ سالہ بچی بھی شامل تھی۔

اسے پیر کے دن سزائے موت دی جانی تھی، لیکن عمل درآمد سے چند گھنٹے قبل ایک وفاقی جج نے ابتدائی رولنگ دے کر اس پر عمل درآمد کو روک دیا۔ جج نے اسے اس بنیاد پر موخر کیا کہ عدالت کو مزید وقت چاہیے کہ وہ یہ تعین کر سکے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کا طریقہ کہیں آئین میں ظالمانہ اور غیر معمولی سزا کے خلاف دیے گئے تحفظ سے متصادم تو نہیں ہے۔

چاروں مجرموں کے وکلا کا استدلال تھا کہ 'پینٹو بار بیٹال' سے تنفس پر دباو پڑتا ہے اور ڈوبنے یا دم گھٹنے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ کی اکثریت نے اس دلیل کو یہ کہتے ہوئےمسترد کیا کہ انفرادی طور پر ریاستوں نے مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے اس دوا کا استعمال کیا اور تقریباً ایک سو افراد کو اسی طریقے سے موت کی سزا دی جا چکی ہے۔

اب بدھ کو ویزلے ایرا پرکے کو سزائے موت دی جائے گی؛ جس کے بعد جمعہ کو ڈسٹن لی ہونکین کو سزائے موت دی جائے گی۔ اٹھائیس اگست کو کیتھ ڈوین نیلسن کو موت کی سزا دی جائے گی۔

امریکہ میں 1988 میں موت کی سزا بحال ہوئی تھی اور اس کے بعد وفاقی حکومت نے تین افراد کو سزائے موت دی، آخری سزائے موت سن دو ہزار تین میں دی گئی تھی۔