پاکستان کے انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات پر امریکہ تشویش کا اظہار کر چکا ہے اور وہ انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر امریکہ کے بیانات میں وہ شدت نہیں ہے جو بنگلہ دیش کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے سامنے آئی تھی۔
گزشتہ ہفتے ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن پاکستان میں انتخابات سے باخبر ہیں۔ پاکستان کے عوام کی مرضی کا احترام اور شفاف انتخابی عمل یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ پاکستان میں انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات پر تشویش ہے۔ انتخابی عمل میں مداخلت یا دھوکہ دہی کے دعوؤں کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔
امریکہ کے علاوہ برطانیہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
واشنگٹن ڈی سی کے پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے بیانات پر تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ امریکہ کے پاکستان میں انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے بہت معتدل بیانات سامنے آئے ہیں جنہیں دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ امریکہ کو انتخابات کے نتائج پر زیادہ تشویش ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زاہد حسین نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے الیکشن میں براہِ راست دھاندلی کے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے بے ضابطگیوں اور طریقۂ کار پر سوال اٹھائے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کی جانب سے تاحال پاکستان کے الیکشن کے حوالے سے کوئی خاص بیان سامنے نہیں آیا۔ وائٹ ہاؤس یا محکمۂ خارجہ کے بیانات سوالات کے جواب میں دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سوال کیا جاتا ہے تو امریکی حکام کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کرے۔
زاہد حسین کا مزید کہنا تھا کہ امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے الیکشن کے حوالے سے آنے والے بیانات میں وہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے لابنگ فرم کی حاصل کی گئی خدمات کا عمل دخل بھی دکھائی دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے الیکشن پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔
امریکہ میں مقیم سینئر پاکستانی صحافی انور اقبال کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے پاکستانی الیکشن پر اٹھائے جانے والے سوالات میں اس دفعہ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ یہ بیانات امریکی انتظامیہ کی طرف سے اپنے طور پر نہیں دیے گئے بلکہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کے دباؤ کے نتیجے میں دیے گئے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پڑھی لکھی پاکستانی امریکن کمیونٹی کی بڑی تعداد نہ صرف عمران خان کی حامی ہے بلکہ وہ کانگریس اراکین اور امریکی اداروں پر اثر و رسوخ رکھتی ہے۔
انور اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمیونٹی کی یہ آواز اب پھیل رہی ہے۔ جمعرات کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی جانب سے پاکستانی انتخابات پر دیا گیا بیان بھی ایک بھارتی صحافی کی جانب سے کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکام اگرچہ ابھی تک محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستانی اداروں کو انتخابی بے ضابطگیوں کی آزادانہ تحقیقات کرنی چاہئیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ کانگریس کے اراکین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان کی جانب سے آزادانہ تحقیقات نہیں کرائی جاتیں تو تعلقات پر نظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول امریکہ یہ سوچتا ہے کہ وہ اگر اس معاملے میں ملوث ہوگا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی فوج ناراض ہو سکتی ہے جب کہ عمران خان مقبول رہنما ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف بھی نہیں جایا جاسکتا۔
پاکستان نے الیکشن کے حوالے سے عالمی خدشات کو اگرچہ مسترد کر دیا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتیں اس معاملے پر مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں اور مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے عدالت اور دیگر متعلقہ فورمز سے رجوع کر رہی ہیں۔
جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے زور دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر آواز اٹھائے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ امریکی سازش کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور اب کہہ رہے ہیں کہ واشنگٹن ڈی سی انتخابی دھاندلی پر آواز اٹھائے۔ عمران خان کا بیان ان کی نظر میں زیادہ سنجیدہ نہیں کیوں کہ حال ہی میں ’اکانومسٹ‘ میں لکھے اپنے مضمون میں عمران خان نے امریکی مداخلت کی بات دھرائی تھی۔
انور اقبال کہتے ہیں کہ عمران خان کا امریکہ کے حوالے سے بیان مجبوری ہے کیوں کہ امریکہ کی دشمنی میں زیادہ عرصہ معاملات نہیں چلائے جا سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے امریکہ میں لابنگ فرمز کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اثر پاکستانی امریکن کمیونٹی کا ہے۔ پاکستان کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے انہیں سنا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے انتخابات کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ کسی ملک کے کہنے پر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے۔